سابقہ نازی جرمن جنگی قیدی ساری پونجی سکاٹش گاؤں کو دے گیا
مقبول ملک
3 دسمبر 2016
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ میں جنگی قیدی رہنے والا ایک جرمن فوجی اظہار تشکر کی منفرد مثال قائم کر گیا ہے۔ نازی فوج کے ایس ایس دستوں کے اس سابق فوجی نے مرتے ہوئے اپنی جمع پونجی ایک سکاٹش گاؤں کے نام کر دی۔
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے ہفتہ تین دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ہٹلر دور کے اس سابق نازی جرمن فوجی کا نام ہائنرش شٹائن مائر تھا، جو 19 برس کی عمر میں ایس ایس دستوں کے ایک فوجی کے طور پر برطانیہ میں جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔
بعد ازاں اسے برطانیہ میں پرتھ شائر کاؤنٹی میں کومری نامی سکاٹش گاؤں کے قریب کلٹی برّگن کے مقام پر جنگی قیدیوں کے ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ تب مقامی باشندوں نے اس نازی جرمن جنگی قیدی سے اتنا اچھا سلوک کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر اپنی رہائی کے بعد کے کئی عشروں کے دوران بھی ہائنرش شٹائن مائر باقاعدگی سے اس گاؤں میں جاتا رہا تھا۔
پھر 2014ء میں جب ہائنرش کا انتقال ہوا، تو اپنی موت سے قبل وہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی، جو قریب تین لاکھ چوراسی ہزار برطانوی پاؤنڈ یا قریب چار لاکھ پچاسی ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی تھی، سکاٹ لینڈ کے اس گاؤں کے نام کر گیا۔
ہائنرش شٹائن مائر کے دیرینہ دوست ایک سکاٹش جوڑے کے اس وقت خود بھی کافی عمر رسیدہ بیٹے جارج کارسن نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہائنرش شٹائن مائر نے اپنی وصیت میں کہا کہ وہ اپنی تمام جمع پونجی اس لیے اس گاؤں کے نام کر رہا تھا کہ کومری کی مقامی آبادی میں شامل ضعیف العمر افراد کی مدد کر سکے۔
یہ بات واضح نہیں کہ شٹائن مائر کی موت کے قریب دو سال بعد اس کی وصیت کی یہ تفصیلات منظر عام پر اب ہی کیوں آئی ہیں۔ تاہم ایک قابل اعتماد دلیل کومری کے ترقیاتی ٹرسٹ کا یہ بیان ہے کہ ہائنرش شٹائن مائر نے اپنا ایک گھر اور جو دیگر املاک اس گاؤں کے نام چھوڑیں، ان سے متعلق یہ اعلان ان اثاثوں کے حوالے سے جملہ قانونی امور طے ہو جانے کے بعد اب ہی کیا جا سکتا تھا۔
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔
تصویر: Imago/Blickwinkel
9 تصاویر1 | 9
جارج کارسن کے بقول ہائنرش شٹائن مائر کا یہ اقدام اس کی طرف سے اس سکاٹش گاؤں کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کا بہت منفرد انداز ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے ماں باپ کی ہائنرش کے ساتھ دوستی جنگی قیدیوں کے کیمپ کی خار دار تاروں کے آر پار سے ہوئی تھی اور پھر وہ اپنی باقی ماندہ پوری زندگی کے لیے دوستی کے ایک بہت مضبوط رشتے میں بندھ گئے تھے۔‘‘
کارس نے مطابق، ’’اس گاؤں نے ہائنرش کے ساتھ اس وقت بہت دوستانہ رویہ اپنایا تھا جب ہائنرش ایک نوجوان جنگی قیدی کے طور پر اپنی زندگی کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا تھا۔‘‘
کارسن نے یہ بھی بتایا کہ جنگی قیدی بننے تک ہائنرش نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ ’’تب میری والدہ نے اپنے چند دستوں کے ساتھ مل کر اپنے ایک بھائی کی اسکول کی یونیفارم چرا کر کیمپ میں لے جا کر ہائنرش کو دی تھی، جس نے وہ پہنی تو تب یہ تمام نوجوان ہائنرش کو کیمپ سے ’اسمگل‘ کر کے سینما لے گئے تھے۔ وہاں ہائنرش نے زندگی میں پہلی بار کسی سینما میں کوئی فلم دیکھی تھی، جس کے بعد اس کے دوستوں نے اسے واپس اس کے کیمپ میں پہنچا دیا تھا۔‘‘
کارسن کے بقول انسانی دوستی کے یہ اور ایسے ہی کئی دیگر واقعات تھے، جن کی وجہ سے ہائنرش کو اس گاؤں سے محبت ہو گئی تھی اور جاتے ہوئے وہ اپنی ساری جمع پونجی بھی اسی گاؤں کے نام کر گیا۔