سابق امریکی سفیر کا چالیس سال تک کیوبا کےلیے جاسوسی کااعتراف
1 مارچ 2024
بولیویا میں سابق امریکی سفیر مانوئل روچا نے چالیس سال سے زائد عرصے تک کیوبا کے ایجنٹ کے طور پر جاسوسی کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ اسے امریکہ اور کیوبا کے درمیان جاسوسی کے سب سے بڑے کیسز میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔
اشتہار
تہتر سالہ وکٹرمانوئل روچا پر الزام لگایا گیا تھا کہ سن 1981 سے امریکی محکمہ خارجہ کے لیے کام کرتے ہوئے وہ کمیونسٹ ملک کیوبا کی حکومت کو امریکی حکومت کی خفیہ معلومات پہنچاتے رہے۔
ابتدا میں خود کو بے قصور قرار دیتے رہنے کے بعد جمعرات کے روز روچا نے میامی کی ایک عدالت میں اپنے اوپر عائد ان الزامات کو تسلیم کرلیا کہ وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے سے کیوبا کے ایجنٹ کے طورپر کام کررہے تھے۔
انہیں 12اپریل کو ہونے والی سماعت کے دوران سزا سنائی جائے گی۔
اشتہار
امریکہ جاسوسی کے اس انکشاف پر حیرت زدہ
کیوبا کے لیے ایک سفارت کار کے اتنے عرصے تک جاسوسی کرتے رہنے کے انکشاف نے امریکہ کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ اسے کیوبا اور امریکہ کے درمیان جاسوسی کے سب سے بڑے کیسز میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے، جسے غیر معمولی طور پر بڑی تیزی سے حتمی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
میامی ہیرالڈ کے مطابق جمعرات کو عدالت میں اس کیس میں شامل خفیہ دستاویزات کے بارے میں جرح ہونی تھی لیکن روچا،ان کے وکیل اور استغاثہ نے کہا کہ ان کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا ہے۔
جب جج بیتھ بلوم نے روچا سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی درخواست کو قبول جرم میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا،"عزت مآب، میں اس سے متفق ہوں۔"
روچا پر غیر ملکی ایجنٹ کے طورپر کام کرکے غیر ملکی ایجنٹوں کے رجسٹریشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے، دستاویزات میں دھوکہ دہی کرنے اور امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے غلط بیانی سے کام لینے کے الزامات ہیں۔
تفتیش کاروں کے ذریعہ جمع کیے گئے شواہد کے مطابق روچا نے کئی دہائیوں تک کیوبا کے لیے کام کیا۔ انہوں نے کیوبا کے آنجہانی رہنما فیدل کاسٹرو کو "کمانڈینٹ" اور امریکہ کو "دشمن" کہا تھا۔
مانوئل روچا کون ہیں؟
روچا کی پیدائش کولمبیا میں ہوئی لیکن ان کی پرورش نیویارک شہر میں ہوئی۔ انہوں نے ییل، ہارورڈ اور جارج ٹاون یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کیں۔
استغاثہ کے مطابق انہوں نے سن 1999سے 2002 تک بولیویا میں امریکی سفیر کے طورپر کام کیا۔ اس کے علاوہ 25 سال تک مختلف حیثیتوں میں خدمات انجام دیں،جن میں قومی سلامتی کونسل میں بھی خدمات شامل ہیں۔ بولیویا کے علاوہ وہ ارجنٹائن، ہونڈوراس، میکسیکو اور ڈومینیکن جمہوریہ میں بھی تعینات رہے۔
سفارتی خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد روچانے امریکی سدرن کمان کے خصوصی مشیر کے طورپر ذاتی حیثیت میں مشاورتی کام جاری رکھا۔ امریکی فوج کا یہ شعبہ کیوبا کے امور پر نگاہ رکھتا ہے۔
روچا کے کیوبا کا جاسوس ہونے کا شبہ اس وقت ہوا جب ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے روچا سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ کیوبا کی انٹیلی جنس سروس کا نمائندہ ہے۔ روچا نے بعد میں اس ایجنٹ سے کئی مرتبہ ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے کیوبا کی حکومت کے لیے خفیہ ایجنٹ کے طورپر کام کرنے کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔
عدالت میں پیش کردہ دستاویزات کے مطابق جب ایف بی آئی کے ایجنٹ نے ایک مرتبہ روچا سے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی کیوبا کے ساتھ ہیں تو امریکی سابق سفارت کار اپنی وفاداری پر سوال اٹھانے پر ناراض ہوگئے اور کہا "یہ میری مردانگی پر سوال" اٹھانے کے مترادف ہے۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔