سابق برطانوی فوجی نے افغان بچی کو اسمگل کیا؟
7 جنوری 2016راب لاری نامی سابق برطانوی فوجی انگلینڈ کے شہر گائزلی کا رہائشی ہے۔ لاری پر الزام ہے کہ اس نے غیر قانونی طور پر بہار نامی افغان بچی کو برطانیہ اسمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہی الزامات کی بنا پر اب چودہ جنوری کو لاری پر فرانسیسی شہر بولون سِور مر میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
لاری کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ برس شامی مہاجر بچے، ایلان کردی کی ساحل پر پڑی ہوئی لاش کی تصویر دیکھی تو اس کا دل پسیج گیا اور وہ تارکین وطن کی مدد کرنا چاہتا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے کی گئی ایک گفتگو میں سابق برطانوی فوجی نے کہا، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں پناہ گزینوں کی مدد کیسے کر سکتا ہوں۔ مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ مجھے یورپ جانا چاہیے، فرانسیسی شہر کیَلے میں مہاجرین کے کیمپ یا پھر ہنگری کی سرحد پر جا کر میں کسی نہ کسی طرح تارک وطن کی مدد کروں۔‘‘
اسی نیت سے لاری نے برطانیہ میں کارپٹ صاف کرنے کا اپنا کاروبار ختم کیا اور فرانس جا کر پناہ گزینوں کی رضاکارانہ طور پر مدد کرنے میں مصروف ہو گا۔ اس نے ایک وین خرید لی اور تارکین وطن کے لیے کمبل، خیمے اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران اس کی ملاقات بہار نامی چار سالہ افغان لڑکی سے ہوئی۔ افغان تارک وطن بچی اور لاری کی جلد ہی دوستی ہو گئی۔
انچاس سالہ ریٹائرڈ برطانوی فوجی کی آنکھوں میں بہار کے بارے میں بات کرتے ہوئے آنسو بھر آئے۔ لوری کا کہنا تھا، ’’وہ ایک اسپیشل بچی ہے۔ میں نے جتنے مہینے بھی اس کے ساتھ گزارے، ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہی دیکھی۔‘‘
اسی دوران بہار کے باپ رضا احمدی نے اس سے درخواست کی کہ وہ بہار کو برطانیہ میں موجود احمدی کے رشتہ داروں تک پہنچا دے۔ لاری نے پہلے تو انکار کر دیا لیکن چار بچوں کے باپ، لاری کا دل جلد ہی پسیج گیا۔ وہ بہار کو کیَلے کے ’غلیظ‘ کیمپ میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔
گزشتہ برس 24 اکتوبر کو راب لاری نے بہار کو اپنی وین میں چھپایا اور برطانیہ کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ فرانسیسی پولیس نے سرحد پر اسے روک کر جب تلاشی لی تو بہار کے علاوہ دو مزید تارکین وطن اس کی گاڑی سے برآمد ہوئے۔ لاری کا کہنا ہے کہ اسے معلوم نہیں کب اریٹریا سے تعلق رکھنے والے دونوں تارکین وطن اس کی گاڑی میں چھپ گئے تھے۔
بہار کو تو واپس اس کے باپ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ تاہم راب لاری کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور اب اس پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ فرانسیسی قانون کے مطابق اسے اس جرم میں پانچ سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ لاری کا کہنا ہے کہ اس نے جذبہ ہمدردی اور بہار سے محبت کی وجہ سے یہ غیر قانونی کام کیا اور اب وہ اپنے عمل پر شرمندہ ہے۔
راب لاری کو آزاد کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر بھی ایک پٹیشن شروع کی گئی ہے جس پر اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں۔