سابق جاپانی وزیر اعظم کی لاش ٹوکیو پہنچا دی گئی جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ گزشتہ روز انہیں نارہ شہر میں انتخابی مہم کے دوران گولیاں ماری گئیں تھی۔
اشتہار
جاپان، جو ہمیشہ اپنے پرتشدد جرائم کی کم ترین سطح اور اسلحہ رکھنے کے سخت قوانین کے حوالے سے جانا جاتا رہا ہے، آج سوگوار ہے۔ گزشتہ روز جاپان کے سابق وزیراعظم شینزو آبے کو انتخابی مہم کے دوران گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ ان کی لاش کو آج ٹوکیو پہنچا دیا گیا ہے جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔
پولیس حکام کے مطابق جاپان کے سابق وزیر اعظم آبے انتخابی مہم پر تھے جب ایک اکتالیس سالہ شخص نے گھر پر تیار کردہ ایک بندوق سے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ جانبر نا ہو سکے۔ اس حملے کے فوراﹰ بعد آبے کے سکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق مشتبہ شخص نے ملکی بحریہ میں خدمات انجام دی تھیں اور وہ سن 2005 میں جاپان کی سیلف ڈیفنس فورس کا حصہ بھی رہا تھا۔
جاپان کے عوامی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ملزم نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ آبے سے ناخوش تھا اور کافی عرصے سے انہیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
نارہ کے رہائشیوں نے جائے وقوعہ پر آبے کی یاد میں پھول پیش کیے۔ ایک مقامی خاتون نٹسومی نیوا نے اس موقع پر کہا، ''میں صرف حیران ہوں کہ نارہ میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔‘‘
نارہ کے ایک اور رہائشی 54 سالہ ساچی ناگافوجی جو تعزیعتی اجتماع میں شریک تھے، کا کہنا تھا کہ، ''میں صرف بیٹھ کر کچھ نہیں کر سکتا، مجھے یہاں آنا پڑا۔‘‘
آبے، سابق وزیر اعظم نوبوسوکے کیشی کے پوتے تھے۔ کیشی جاپان کے سب سے طویل المدتی وزیر اعظم رہے۔ وہ سن 2006 میں ایک سال اور پھر سن 2012 سے 2020ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
انتخابی مہم دوبارہ شروع
اس واقعے کے بعد ملک میں پارلیمان کے ایوانِ بالا کے لیے انتخابی مہم دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم فومیو کشیدا نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آبے کے قتل کو 'وحشیانہ عمل‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق، ''یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔‘‘
تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے اس واقعے کے پیش نظر جیت کے امکانات وسیع تر ہو گئے ہیں۔ ایڈوائزری فرم ٹینیو کے نائب صدر جیمز بریڈی نے کہا، ''اب ہمدردی کے ووٹوں کی تعداد جیت کے مارجن کو بڑھا سکتی ہے۔‘‘
آبے کی موت نے ملک میں عوامی شخصیات کی حفاظت کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ جاپان میں انتخابی مہم کے دوران باقاعدگی سے سیاستدانوں کو عوامی مقامات پر براہ راست عوام سے بات کرتے اور ووٹوں کی اپیل کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
جاپانی شہنشاہ اور ’دیوتا‘ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری
جاپانی شہنشاہ آکی ہیٹو تیس سال تک تخت پر براجمان رہنے کے بعد اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ جاپان کے نئے شہنشاہ ان کے بیٹے ناروہیٹو ہوں گے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
شاہی خاندان کی روایات میں تبدیلی
جاپانی شاہی خاندان میں آنے والی اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ آکی ہیٹو جاپان میں گزشتہ دو سو سال میں تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ مشرق بعید کی اس بادشاہت میں صدیوں پرانی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی شہنشاہ جب ایک بار تخت سنبھال لے، تو وہ عمر بھر یہ ذمے داریاں انجام دیتا رہتا ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
تخت سے دستبرداری کی تقریبات
پچاسی سالہ آکی ہیٹو تین عشرے قبل ’چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ جاپان میں تخت پر بیٹھے تھے۔ کل بدھ یکم مئی کو مذہبی اور روایتی تقریبات کے اختتام پر شہنشاہ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، جس کی تکمیل صدیوں پرانی روایات پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
سورج کی دیوی سے دعا
ان کی شہنشاہ کے طور پر تخت سے دستبرداری کی شاہی تقریبات آج منگل 30 اپریل کو شروع ہوئیں، جو دو دن جاری رہیں گی۔ آج دن کے آغاز پر یہ تقریبات آکی ہیٹو کی طرف سے شِنٹو عقیدے کے مطابق سورج کی دیوی کی ایک عبادت گاہ میں دعائیہ تقریب کے ساتھ شروع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Jiji Press
دیوتاؤں کو اطلاع دینے کی مذہبی تقریب
منگل تیس اپریل کی صبح جب شہنشاہ آکی ہیٹو روایتی جاپانی لباس پہنے ہوئے ’کاشی کودو کورو‘ کی شِنٹو عبادت گاہ گئے، تو اس کا مقصد وہاں عبادت کرتے ہوئے دیوتاؤں کو ان کی تخت سے دستبرداری کی اطلاع دینا تھا۔ یہ شِنٹو عبادت گاہ ’آماتےراسُو‘ نامی شِنٹو دیوی کے نام پر قائم کی گئی تھی، جنہیں جاپان میں شاہی خاندان کے ’براہ راست اجداد‘ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Issei Kato
تخت سے دستبرداری کے روایتی تقاضے
آج منگل کے روز پہلے شہنشاہ آکی ہیٹو شاہی محل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے، جس میں اعلیٰ ترین حکومتی نمائندوں کے علاوہ شاہی خاندان کے مرد ارکان بھی حصہ لیں گے۔ شاہی قانونی روایات کے مطابق آکی ہیٹو آج رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے تک شہنشاہ رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بدھ کو ان کے بیٹے اور ولی عہد ناروہیٹو نئے شہنشاہ کے طور پر تخت پر بیٹھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وراثت کی منتقلی
اس کے بعد ایک اور علیحدہ شاہی تقریب بھی منعقد ہو گی، جس میں نئے شہنشاہ کے طور پر ناروہیٹو کو شاہی تلوار، ہیرے جواہرات، شاہی خاندان کی مہر اور جملہ شاہی اختیارات منتقل کر دیے جائیں گے۔ جاپان میں یہ تقریب شاہی وراثت کی منتقلی کی تقریب کہلاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
آکی ہیٹو کی شخصیت
جاپان دنیا کی قدیم ترین بادشاہت ہے، جہاں آکی ہیٹو سے پہلے ان کے والد ہیروہیٹو شہنشاہ تھے۔ ہیروہیٹو دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جاپانی تخت کے مالک تھے اور ان کا جاپانی عوام ایک دیوتا جیسا احترام کرتے تھے۔ اس لیے کہ جاپان میں بادشاہ کو انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Imperial Household Agency of Japan
آکی ہیٹو کا دور حکمرانی
آکی ہیٹو اپنے والد ہیروہیٹو کے انتقال کے بعد 1989ء میں تخت پر بیٹھے تھے اور 2016ء میں انہوں نے یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا کہ وہ تخت سے دستبردار ہونا چاہتے تھے۔ انہیں ماضی میں سرطان کا مرض بھی لاحق رہا ہے اور ان کے دل کا آپریشن بھی ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Hoshiko
ایک عام جاپانی خاتون سے شادی
جاپانی شاہی خاندان میں آکی ہیٹو کی شخصیت کی خاص بات یہ رہی ہے کہ انہوں نے اس گھرانے کے کردار کو جدید بنانے کی کوشش کی۔ وہ ایسے پہلے شہنشاہ تھے، جنہوں نے ایک عام جاپانی خاتون سے شادی کی تھی۔ یہی خاتون بعد میں ’ملکہ میچی کو‘ بنیں۔
تصویر: Reuters/Kyodo
ایک عوام دوست شہنشاہ
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جاپانی عوام کے ساتھ اپنے رابطوں اور شاہی منصب پر فائز ہونے کے باوجود عام شہریوں کے لیے اپنی جذباتی قربت کا کئی بار مظاہرہ کیا، جسے بہت سراہا گیا تھا۔ اس انتہائی انسان دوست شاہی رویے کی بڑی مثالیں 2011ء میں آنے والے زلزلے اور سونامی طوفان اور اس سے قبل 1995ء میں کوبے شہر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے موقع پر بھی دیکھی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ولی عہد ناروہیٹو کون ہیں؟
آئندہ شہنشاہ ناروہیٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح جاپانی شاہی خاندان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری رکھیں گے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ماساکو اوواڈا سے شادی کر رکھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Kawada
ناروہیٹو اور بیٹی کی پیدائش
ناروہیٹو کی عمر اس وقت 59 برس ہے اور وہ ماضی میں ملکی شاہی زندگی کے چند پہلوؤں پر تنقید کرنے سے بھی نہیں گھبرائے تھے۔ ناروہیٹو کی ماساکو اوواڈا سے شادی 1993ء میں ہوئی تھی اور اس سے قبل وہ ایک کامیاب سفارت کار تھیں۔ ماساکو اوواڈا پر جاپانی عوام کی توقعات کے حوالے سے ایک بڑا دباؤ یہ بھی تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جنم دے کر ملک کو مستقبل کے لیے تخت کا ایک نیا وارث مہیا کریں، مگر ایسا ہو نہیں سکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Kyodo
تخت نشینی کے حقدار صرف مرد
ولی عہد ناروہیٹو اور شہزادی اوواڈا کی صرف ایک ہی اولاد ہے اور وہ شہزادی آئیکو ہیں، جو 2001ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن شہزادی آئیکو مستقبل میں تخت پر ملکہ کے طور پر براجمان نہیں ہو سکیں گی، کیونکہ جاپان میں تخت کا وارث صرف کوئی بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
تصویر: AP
مستقبل کے ممکنہ جانشین
ناروہیٹو کے تخت نشین ہونے کے بعد ان کے ممکنہ جانشین ان کے بھائی شہزادہ آکی شینو ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن آکی شینو کا اپنا بھی صرف ایک ہی بیٹا ہے، جس کی عمر اس وقت صرف 12 برس ہے۔ اس طرح ناروہیٹو کے بادشاہ بننے کے بعد دنیا کی اس قدیم ترین بادشاہت کے لیے آکی شینو اور ان کے اس وقت کم عمر بیٹے کے علاوہ ملکی تخت کا کوئی مرد وارث موجود ہی نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Jiji Press/T. Ogura
14 تصاویر1 | 14
آبے کی میراث کیا ہے؟
آبے 52 سال کی عمر میں پہلی بار اقتدار میں آئے۔ ان کی پہلی حکومتی مدت اسکینڈلز اور اختلافات کی نظر ہوگئی۔ جب انہوں نے اچانک استعفی دینے کا فیصلہ کیا تو ابتدائی طور پراس فیصلے کو 'سیاسی وجوہات‘ سے جوڑا گیا لیکن بعد میں انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اپنی خراب صحت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
آبے سن 2012 میں دوبارہ وزیر اعظم بنے اور انہوں نے 'آبے نومکس‘ متعارف کرایا۔ یہ جاپان کی معیشت کو بحال کرنے کا ایک منصوبہ تھا جس میں وسیع سرکاری اخراجات اور بڑے پیمانے پر مالیاتی نرمی کے حوالے سے پلان شامل کیے گئے۔
ان کی حکومتی مدت کو جاپان کی جنگ کے بعد کے امن پسند آئین کو دوبارہ لکھنے کی ناکام کوشش اور ملک کے سامراجی ماضی کے بارے میں ان کے نظر ثانی کے نقطہ نظر سے بھی جانا جاتا ہے۔