سابق سوویت یونین کی لیجنڈری جاسوسہ وارتانیان انتقال کر گئیں
27 نومبر 2019
سابق سوویت یونین کی لیجنڈری جاسوسہ گور وارتانیان ترانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئی ہیں۔ انہی کی مدد سے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کا چرچل، سٹالن اور روزویلٹ کے قتل کا خفیہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا تھا۔
اشتہار
سابق سوویت یونین کی شہری اور اس نامور خاتون جاسوس کا کمال یہ تھا کہ ان کے شوہر گیوورک وارتانیان بھی سوویت یونین کے لیے کام کرنے والے ایک جاسوس تھے اور ان دونوں کی کوششوں کی وجہ سے 1943ء میں دوسری عالمی جنگ کے عروج کے دور میں نازی جرمنی کی قیادت کا وہ خفیہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا تھا، جس کا مقصد جرمنی کے تین بڑے جنگی حریف ممالک کی اعلیٰ ترین قیادت کو قتل کرنا تھا۔
نازی جرمنی کے اس خفیہ منصوبے کے تحت برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل، سوویت یونین کے مرد آہن جوزف سٹالن اور امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کو قتل کیا جانا تھا۔
سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست کے طور پر موجودہ روس کی بیرونی دنیا میں جاسوسی کرنے والی خفیہ سروس ایس وی آر کے منگل چھبیس نومبر کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق گور وارتانیان کا انتقال 93 برس کی عمر میں ہوا۔
اس بیان کے مطابق گور اور ان کے شوہر گیوورک وارتانیان جاسوسوں کا ایک ایسا شاندار جوڑا تھے، جس نے اپنے بعد آنے والی عام شہریوں کی نسلوں اور انٹیلیجنس کے شعبے میں کام کرنے والی بے شمار شخصیات کی زندگیوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔
'بظاہر نرم و نازک خاتون لیکن شاندار خدمات‘
روسی فارن انٹیلیجنس سروس کے سربراہ سیرگئی ناریشکن نے گور وارتانیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا، ''وہ اس امر کی مجسم مثال تھیں کہ مادر وطن کی مکمل دلجمعی کے ساتھ خدمت کیسے کی جاتی ہے۔‘‘
ناریشکن کے الفاظ میں، ''ہم یہ کبھی نہیں بھلا سکیں گے اس بظاہر نرم و نازک مگر بہت مضبوط، باہمت اور بےلوث خاتون نے اپنے وطن کے لیے انٹیلیجنس کے شعبے میں کتنی شاندار خدمات انجام دیں۔‘‘
تہران کے ہیرو
گور وارتانیان 1926ء میں سوویت یونین کی حکمرانی والے علاقے آرمینیا میں پیدا ہوئی تھیں۔ پھر چند برس بعد ان کا خاندان تہران منتقل ہو گیا تھا۔ ایک ٹین ایجر کے طور پر وہ ایران میں ایک فاشزم مخالف گروپ میں شامل ہو گئی تھیں، جہاں ان کی ملاقات گیوورک وارتانیان سے ہوئی تھی جن سے انہوں نے بعد شادی بھی کر لی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے شروع کے دنوں میں وارتانیان کے گروپ نے سینکڑوں ایسے نازی ایجنٹوں کا پتہ چلایا تھا، جو اس وقت ایران میں کام کر رہے تھے۔ اس گروپ کا اہم ترین کام ایک ایسی نازی سازش کا پتہ چلانا تھا، جس کا مقصد 1943ء میں اپنی پہلی سہ فریقی سمٹ کے لیے تہران میں جمع ہونے والے برطانیہ، سوویت یونین اور امریکا کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کا قتل تھا۔
جاسوسوں کو ان زہروں سے ہلاک کرنا ممکن ہے
کم از کم پانچ ایسے زہریلے مادے ہیں، جن کے استعمال سے جاسوسوں کو ہلاک کرنے کا پتہ ملتا ہے۔ ان میں سے چار کے استعمال کے مصدقہ ثبوت بھی موجود ہیں۔
تصویر: Imago/RelaXimages
پولونیم ٹُو ٹین
سن 2006 میں لندن میں مقیم روسی جاسوس الیگزانڈر لِٹیونینکو کو اسی کیمیائی مادے کے استعمال سے ہلاک کیا گیا تھا۔ برطانوی تفتیش کاروں کے مطابق یہ مواد سابقہ روسی جاسوس کے کسی ساتھی نے ملاقات کے دوران اُن کی چائے میں ملا دیا تھا۔ پولونیم ٹُو ٹین ایک ایسا کیمیائی مواد ہے، جو بازاروں میں دستیاب نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Driessen
رائسین
یہ بھی ایک انتہائی خطرناک زہر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار سے کسی کو بھی ہلاک کرنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ رائسین میں شامل کیمیائی مادے انسان کے اعصابی و جسمانی نظام کو بتدریج مفلوج کرتا جاتا ہے۔ یہ زہر ارنڈ یا کیسٹر کے پودے کے بیج سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
وی ایکس
اس زہر کے استعمال سے گزشتہ برس شمالی کوریائی سپریم لیڈر کم جونگ اُن کے سوتیلے بھائی کم جونگ نام کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالم پور کے ہوائی اڈے پر قتل کیا گیا تھا۔ یہ بھی اعصابی نظام کو مفلوج کرنے والا خطرناک کیمیکل ہے۔ اس کی انتہائی معمولی مقدار کسی بھی بالغ یا بچے کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ شمالی کوریا کے پاس اس کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Chan
بوٹوکس
یہ ایک ایسا زہریلا مادہ ہے، جو حالیہ دور میں کوسمیٹک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بوٹوکس (Clostridium Botulinum) کو اگر خوراک میں ڈال دیا جائے تو وہ انتہائی زہریلی ہو جاتی ہے۔ اس زہر کے استعمال کے بعد انسانی جسم کی صورت ٹیٹنس انفیکشن جیسی ہوسکتی ہے۔ اس کا استعمال انسانی اعصابی نظام مفلوج کر دیتا ہے۔ عراق میں سابق آمر صدام حسین کے دور میں بوٹوکس کو ایک ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بی ٹی ایکس
یہ ایک انتہائی زہریلا مادہ ہے۔ اس کو سب سے پہلے لاطینی امریکا میں ناپید ہونے والی مینڈکوں کی نسل میں دریافت کیا گیا تھا۔ بی ٹی ایکس کی انتہائی قلیل مقدار ایک انسان کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد دل کے مَسل یا عضلات کو مفلوج کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ زہر لیبارٹریز میں تیار نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
5 تصاویر1 | 5
تب سوویت یونین کے لیے کام کرنے والے اس جاسوس جوڑے نے نازی جرمنی کے جس منصوبے کا پتہ چلا لیا تھا، اسے 'آپریشن لانگ جمپ‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس 'آپریشن‘ کے دوران چرچل، سٹالن اور روزویلٹ کو ایرانی دارالحکومت تہران میں قتل کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کی بھنک پڑ جانے کے بعد گور اور گیوورک وارتانیان نے تہران میں جرمن خفیہ ایجنٹوں کی اس اولین ٹیم کا بھی پتہ چلا لیا تھا، جس کے ارکان کو بعد ازاں سوویت حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔
تب نازی جرمنی کی قیادت نے یہ منصوبہ اپنی ایران بھیجی گئی خفیہ ٹیموں کی ناکامی کے بعد منسوخ کر دیا تھا۔ بین الاقوامی سیاست اور انٹیلیجنس کی دنیا میں یہ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ 1980ء میں اسی موضوع پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی، جس میں ہیرو کا کردار فرانسیسی اداکار ایلاں ڈِیلاں نے ادا کیا تھا۔
سوویت یونین منتقلی
1951ء میں گور اور گیوورک وارتانیان نے سابق سوویت یونین میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ سوویت یونین میں یہ شادی شدہ جوڑا دوبارہ انٹیلیجنس کے کام میں مصروف ہو گیا تھا اور یہ کام وہ دونوں 1986ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک کرتے رہے تھے۔ روسی فارن انٹیلیجنس سروس کے بیان کے مطابق، ''ان دونوں نے کئی ممالک میں انتہائی نوعیت کے حالات میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں۔‘‘ SVR نے ان دونوں کے فرائض سے متعلق اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
مشہور رقاصہ اور ’ڈبل ایجنٹ‘ ماتا ہری کون تھیں؟
مشہور ڈچ رقاصہ اور ’جاسوسہ‘ مارگریٹا سیلے کی سزائے موت پر عملدرآمد کو سو برس بیت گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اس فنکارہ کو فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
’آنکھیں بند نہیں کرنا‘
اپنے نیم عریاں رقص کے باعث مشہور ہونے والی فنکارہ ماتا ہری کو اکتالیس برس کی عمر میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اپنے فن اور فیشن کے ذوق کے باعث وہ پاپولر کلچر میں آج بھی زندہ ہیں۔ سو برس قبل پندرہ اکتوبر سن 1917 کو جب انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا گیا تھا تو انہوں نے شوٹنگ سے قبل اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بزنس مین کی بیٹی
مارگریٹا سیلے ایک ڈچ بزنس مین کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں اپنی عمر سے کافی بڑے ایک فوجی افسر سے شادی کی تھی لیکن جلد انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتیں۔ تب سن 1903 میں وہ رشتہ ازداوج کو توڑتے ہوئے (انڈونیشیا سے) فرانس چلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف ستائیس برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Heritage-Image
خالی ہاتھ فرانس میں
جب خوبرو مارگریٹا پیرس پہنچیں تو ان کے ہاتھ بالکل خالی تھے۔ تب انہوں نے ایک کلب میں نیم برہنہ رقص کرنا شروع کیا اور اپنا نام بدل کر ماتا ہری رکھ لیا۔ جلد ہی وہ مشہور ہو گئیں اور یورپ بھر میں ان کا چرچا ہو گیا۔ انیس سو دس کی دہائی میں وہ بطور فنکارہ ایک معروف شخصیت کا روپ دھار چکی تھیں۔
واشنگٹن ٹائمز نے سن دو ہزار سات میں لکھا تھا، ’’اپنے وقت میں وہ میڈونا کی طرح مشہور و معروف تھیں۔‘‘ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے انہوں نے اس وقت کے بڑے بڑے فوجی افسران اور سفارتکاروں سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ تب انہیں مال و زر کی کوئی فکر نہیں رہی تھی۔
تصویر: Getty Images
’دلربا معشوق‘
پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ میں جب ماتا ہری کو جرمن افواج کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرانس میں سزائے موت سنائی گئی تھی تو یورپ بھر میں مقتدر حلقے انہیں جانتے تھے۔ کہا جتا ہے کہ ہالینڈ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں وہ دلربا کے نام سے مشہور تھیں۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv
جسم فروشی پر مجبور
سن انیس سو چودہ میں البتہ ان کی شہرت کچھ مانند پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں وہ پیرس میں ایک کال گرل کے طور پر کام کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کا کام تب وزراء اور دیگر بڑی شخصیات کی جنسی ہوس کو پورا کرنا ہی رہ گیا تھا۔ اب ان کے پاس مال و دولت بھی کم ہو گئی تھی۔ آرام و آسائش سے زندگی گزارنے والی ماتا ہری کے لیے یہ ایک بڑی تکلیف دہ بات تھی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جاسوسی کا آغاز
سن انیس سو سولہ میں ماتا ہری نے رقوم کی خاطر فرانس کی جاسوسی کرنے کی حامی بھری۔ تب ایک جرمن سفارتکار نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فرانسیسی راز جرمن حکومت کو فراہم کریں گی تو ان کے تمام قرضہ جات ادا کر دیے جائیں گے۔ ماتا ہری کے لیے اس مشکل وقت میں اور کیا راستہ ہو سکتا تھا؟
تصویر: picture-alliance/akg-images
’ڈبل ایجنٹ‘
بعد ازاں ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کو پیشکش کر دی کہ وہ ان کے لیے بھی جاسوسی کا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت فرانسیسی حکام کو پہلے سے شبہ ہو چکا تھا کہ یہ خوبرو خاتون جرمنوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی خفیہ اداروں نے انہیں کئی مشن دیے لیکن اس دوران ماتا ہری کی نگرانی جاری رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
شک یقین میں بدل گیا
فرانسیسی خفیہ اداروں کا شک اس وقت یقین میں بدلا، جب ماتا ہری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فیٹل کے مشرقی محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ اس وقت وہاں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ماتا ہری کے مطابق وہ وہاں اپنے ایک روسی فوجی دوست سے ملنے جانا چاہتی تھی۔
جنوری سن انیس سو سترہ میں فرانسیسی حکام کو یقین ہو گیا کہ ماتا ہری جرمن فوج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ جرمن فوج نے ماتا ہری کا نام ایجنٹ H21 رکھا ہوا تھا۔ تب ہری کو ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں پچیس جولائی سن انیس سو سترہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ کو جب سزائے موت پر عملدرآمد کی خاطر ماتا ہری کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا اور شوٹنگ سے پہلے انہوں نے فائرنگ اسکواڈ کی طرف ’فلائینگ کس‘ بھی کیے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پاپولر کلچر
ماتا ہری کی زندگی پر ادب بھی تخلیق کیا گیا اور کئی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ تحقیقات کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ماتا ہری نے ڈبل ایجنٹ کے طور پر جرمن اور فرانسیسی افواج کو کیا کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ اب بھی کئی حلقے ماتا ہری کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
گور اور گیوورک وارتانیان اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مستقبل کے روسی جاسوسوں کو تربیت دیتے رہے تھے۔ گیوورک وارتانیان کو تو سابق سوویت یونین کا 'ہیرو آف دا سوویت یونین ایوارڈ‘ بھی دیا گیا تھا۔
شوہر کے جنازے میں صدر پوٹن بھی شامل ہوئے
گیوورک وارتانیان کو سابق سوویت یونین کا جو اعلیٰ اعزاز ملا تھا، وہ پانچ کونوں والے ایک ستارے کی شکل کا تھا۔ گور کے شوہر اکثر اس ستارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ان 'پانچ کونوں میں سے کم از کم دو کونے‘ ان کی اہلیہ کا حصہ ہیں۔
گیوورک وارتانیان کا انتقال 2012ء میں 87 برس کی عمر میں ہوا تھا اور ان کے جنازے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے خاص طور پر شرکت کی تھی، جو ماضی میں خود بھی سابق سوویت یونین کی انٹیلیجنس ایجنسی کے جی بی کے ایک افسر رہ چکے ہیں۔ گیوورک وارتانیان کو ماسکو میں انتہائی اہم شخصیات کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا اور بعد ازاں اسی قبرستان میں ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کر دیا گیا تھا۔
روسی فارن انٹیلیجنس سروس SVR کے ایک ترجمان کے مطابق گور وارتانیان کو ممکنہ طور پر جمعہ 29 نومبر کو ماسکو کے اسی مشہور قبرستان میں سپرد خاک کر دیا جائے گا۔
م م / ع ا (اے ایف پی، انٹرفیکس)
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔