1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق مصری وزیراعظم گرفتار

افسر اعوان25 دسمبر 2013

مصری پولیس نے اسلام پسند سابق صدر محمد مُرسی کے وزیراعظم کو گرفتار کر لیا ہے۔ دوسری طرف پولیس کی ایک ہیڈکوارٹر کے باہر ہونے والے کار بم دھماکے کے نتیجے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

تصویر: Reuters

مصری وزارت داخلہ کے مطابق سابق وزیراعظم ہشام قندیل کو قاہرہ کے قریب ایک صحرا سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک ’سمگلر کے ساتھ سوڈان فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘ قندیل کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ایک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے الزام میں سزا کا سامنا ہے۔

ہشام قندیل اپنے وزارت عظمی کے دور میں ملکی معیشت کو بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ انہوں نے فوج کی طرف سے مُرسی حکومت ختم کیے جانے تک خود کو نسبتاﹰ غیر نمایاں ہی رکھا۔

مصری حکومت کے مطابق یہ دھماکا سابق صدر محمد مُرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمون کی طرف سے کیا گیا ہےتصویر: Khaled Desouki/AFP/Getty Images

رواں برس اپریل میں جب قندیل ابھی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار تھے، ایک عدالت نے انہیں ایک ایسی کمپنی کو دوبارہ نیشنلائز کرنے میں ناکامی پر ایک برس قید کی سزا سنائی تھی، جسے 1996ء میں پرائیویٹائز کر دیا گیا تھا۔ ستمبر میں ایک اعلیٰ عدالت نےاس حوالے سے دائر کی جانے والی اپیل کو خارج کرتے ہوئے ان کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔

دوسری طرف مصری شہر منصورہ میں پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر آج علی الصبح ہونے والے کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 15 افرا د ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 12 پولیس اہلکار ہیں۔

مصری حکومت کے مطابق یہ دھماکا سابق صدر محمد مُرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمون کی طرف سے کیا گیا ہے۔ یہ دھماکا مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے جان لیوا ترین دھماکوں سے ایک تھا۔

کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 15 افرا د ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 12 پولیس اہلکار ہیںتصویر: Reuters

اخوان المسلمون کی جانب سے اس دھماکے کی ’انتہائی شدید‘ مذمت کی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ کارروائی ان اسلامی شدت پسندوں کی ہو سکتی ہے جو جزیرہ نما سینائی میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے اس طرح کے دھماکے کرتے رہے ہیں۔

تفتیشی حکام کے مطابق انہیں شبہ ہے کہ ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کو عمارت کے باہر لگے ہوئے بیریئر سے ٹکرا کر دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکے سے مرکزی عمارت کو کافی نقصان پہنچا۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز 20 کلومیٹر دور تک سنی گئی۔

اس دھماکے کے کئی گھنٹے بعد مصری عبوری حکومت کے وزیراعظم حازم ببلاوی نے اخوان المسلمون کو ایک ’دہشت گرد‘ گروپ قرار دیا تاہم انہوں نے اس دھماکے کی ذمہ داری اس جماعت پر عائد نہیں کی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں