1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق یوگوسلاویہ میں جنگیں اور یوکرینی جنگ: مماثلات و تضادات

10 مارچ 2022

کیا یہ ممکن ہے کہ سابق یوگوسلاویہ میں لڑی گئی جنگوں کی روشنی میں یوکرین کی جنگ کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی جا سکے؟ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ان جنگوں میں مماثلات کیا ہیں اور متضادات کیا؟ کیا کوئی سبق سیکھے بھی گئے تھے؟

انیس سو چورانوے میں ساراژیوو کے جنگی محاصرے کے دوران لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/ dpa

یورپ میں جنگ! پچھلی مرتبہ ان خوف ناک الفاظ کی گونج تین عشرے سے بھی زیادہ عرصہ قبل اس وقت سنی گئی تھی جب ستائیس جون 1991ء کے روز یوگوسلاویہ کی پیپلز آرمی کے ٹینک اٹلی اور آسٹریا کے ساتھ قومی سرحدی گزرگاہوں پر تعینات کر دیے گئے تھے۔ مقصد اس دور کی یوگوسلاو جمہوریہ سلووینیہ کو علیحدہ ہونے سے روکنا تھا۔ اب انہی الفاظ کی گونج یوکرین پر روسی فوجی چڑھائی کے بعد سے سنائی دے رہی ہے۔

جنگی مقاصد: روس یوکرین کا ایک ریاست کے طور پر 'پھرتی سے سر قلم کر کے‘ کییف میں اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا تھا۔ روسی صدر پوٹن کی یہ کوشش فوری طور پر تو کامیاب نہ ہوئی اور اب ماسکو کی فوجیں پورے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سابق یوگوسلاویہ میں بھی جنگ کا مقصد چند ہی دنوں میں تبدیل ہو گیا تھا۔ پہلے یوگوسلاو فوج نے وفاقی ریاست یوگوسلاویہ کو زبردستی متحد رکھنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش ناکام رہی تو کروشیا اور پھر بوسنیا میں بھی جنگیں شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد 1998ء اور 1999ء میں کوسووو کی لبریشن آرمی نے بھی کوسووو کی آزادی کی مسلح جدوجہد کی۔ ہوا یہ کہ مقاصد بدلتے رہے اور جنگیں جاری رہیں۔

سبق: جب تک مقاصد حاصل نہ ہو جائیں، امن دور دور تک نظر نہیں آتا۔

انیس جون انیس سو پچانوے: محاصرے کے دوران ساراژیوو میں ایک جلتی ہوئی، کئی منزلہ رہائشی عمارتتصویر: picture-alliance/dpa

جنگی حالات: یوگوسلاویہ کی ٹوٹ پھوٹ میں کسی بھی بڑی طاقت کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، روس کو بھی نہیں۔ اس کے برعکس بڑی طاقتوں نے آپس میں اپنی امن کوششیں جاری رکھیں، جو طویل عرصے تک بے نتیجہ ہی رہی تھیں۔ اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور کی گئیں، بحثیں ہوئیں، لیکن جنگیں ختم نہ ہوئیں۔ یوکرین کی جنگ کے بارے میں تو عالمی سلامتی کونسل میں روسی ویٹو نے قرارداد کا راستہ ہی روک دیا۔ نئی عالمی طاقت چین نے بھی ابھی تک یوکرین کے خلاف روسی فوجی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ الٹا ماسکو نے اس جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دے دی۔ آج تین عشرے قبل کے مقابلے میں عالمی امن کو ایک مختلف قسم کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

سبق: ماضی کے باقی ماندہ یوگوسلاویہ کے رہنما سلوبوڈان میلوشے وچ اور روس کے موجودہ صدر پوٹن کے مابین سطحی قسم کے موازنے اب مزید غلط فہمیوں کا سبب بنیں گے۔ ایسے موازنوں کے بجائے مسائل کے حل پہلے نکالے جانا چاہیے تھے۔

حکمت عملی: بوسنیا میں پہلے سرب اور پھر کروآٹ قیادت نے کوشش کی کہ نسلی طور پر تطہیر شدہ علاقے قائم کیے جائیں۔ اس کے برعکس یوکرین میں روس کا ہدف یہ ہے کہ پورے ملک کو ہی نیچا دکھایا جائے اور ساتھ ساتھ کم از کم اس کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کر لیا جائے۔ بات ریاست کی ہے، نہ کہ عوام کی۔ روس نے یوکرین میں 'نسلی تطہیر‘ کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ بوسنیا کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے 12 گنا بڑے یوکرین میں ایسا کیا بھی نہیں جا سکتا۔

سبق: مہاجرین کو قبول کرو اور کوئی اس خوف میں نہ رہے کہ مہاجرین ہمیشہ کے لیے آئے ہیں۔

سات مارچ دو ہزار بائیس: روسی بمباری کے نتیجے میں یوکرین میں تباہی کے ایسے مناظر اب عام ہیںتصویر: State Emergency Service of Ukraine/REUTERS

محاصرہ: بوسنیائی دارالحکومت ساراژیوو اپریل 1992ء سے لے کر ستمبر 1995ء تک محاصرے میں تھا۔ اس محاصرے کا مقصد شہر پر قبضہ کرنا یا وہاں کے شہریوں کو بےدخل کرنا نہیں تھا، جیسا کہ بوسنیا کے بے شمار چھوٹے چھوٹے شہروں میں دیکھنے میں آیا تھا۔ بڑا مقصد تو یہ تھا کہ شہر کو یرغمال بنا لیا جائے اور بعد میں اسے یرغمالی کے طور پر دیگر علاقوں کے ساتھ تبادلے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی لیے ساراژیوو کے شہریوں کو بھوک سے مرنے سے بچا لیا گیا تھا اور شہر کو بجلی اور پانی کی فراہمی بھی منقطع نہیں کی گئی تھی۔ محاصرے کے صرف دو ماہ بعد ہی بوسنیائی دارالحکومت کو بہت لازمی سامان کی فراہمی کے لیے فضائی رابطوں کا اہتمام کیا جا چکا تھا۔

یوکرین کے کئی شہر بھی اس وقت محاصرے میں ہیں، جن میں سے کئی تو ساراژیوو سے بھی بہت بڑے ہیں۔ یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تو تقریباﹰ بوسنیائی دارالحکومت جنتی بنتی ہے اور وہ یوکرین کا دسواں سب سے بڑا شہر ہے۔ ساراژیوو کے برعکس روسی فوج یوکرینی شہروں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہاں کی صورت حال بوسنیائی شہروں کی جنگ کے دوران صورت حال کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہو گی۔

سبق: کسی بھی دوسری بات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اشیائے ضرورت کی ترسیل کے لیے سپلائی کوریڈور موجود ہوں۔

انخلاء: جب حالات ناقابل برداشت ہو جائیں گے، جیسا کہ ماریوپول اور خارکیف میں ہو بھی چکا ہے، تو ادویات ناپید ہو جائیں گی۔ بجلی اور پانی کی فراہمی روک دی جائے گی اور اشیائے خوراک کی بھی قلت پیدا ہو جائے گی۔ تب امدادی تنظیموں کو مدد کے لیے آنے کی اجازت بھی دے دی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امدادی کاموں کے لیے رابطہ دفتر کے اسٹریٹیجی امور کے ڈائریکٹر ہانس یورگ شٹرومائر کے مطابق، ''ایسے حالات میں امدادی سرگرمیاں بھی اس لیے خوش کن نہیں ہوتیں کہ امدادی کارکن بہرحال جنگی علاقے ہی میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘

جب کسی شہر کی سول آبادی وہاں سے رخصت ہونے لگتی ہے، تو حملہ آور فوج ایسے شہریوں کو آسانی سے اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔ اس لیے یوکرین کے بارے میں اقوام متحدہ کی پالیسی یہ ہے کہ کسی بھی شہر سے سول آبادی کو اسی وقت نکالا جائے، جب دونوں جنگی فریق اور خود وہ شہری بھی وہاں سے رخصت ہونا چاہیں۔

جنگ کے دوران تباہ ہونے والی ساراژیوو کی قومی لائبریریتصویر: Imago/J. Eis

یوکرینی حکومت کے بیانات کے مطابق ماریوپول کے چار لاکھ چالیس ہزار شہریوں میں سے دو لاکھ کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ ہانس یورگ شٹرومائر کے مطابق، ''یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ انتظامات کے حوالے سے بہت پیچیدہ اور بہت ہی بڑا کام۔ اگر اس شہر سے تمام شہریوں کو نکالنا مقصود ہو، تو اس کے لیے تو وسیع تر انتظامات اور کم از کم دو ہفتے کا جنگ بندی وقفہ درکار ہوں گے۔‘‘ بہت اہم سوال تو یہ بھی ہو گا کہ ماریوپول کے شہریوں کو وہاں سے نکال کر کتنا سفر کروا کر کہاں پہنچایا جائے گا؟

سبق: مہاجرین بن جانے والے عام شہریوں کی بہت بڑی تعداد کے باوجود کسی بھی علاقے کی مقامی آبادی کی اکثریت وہیں رہتی ہے۔

شہری آبادی کا تحفظ: سابق یوگوسلاویہ میں پہلے کروشیا اور پھر بوسنیا میں، لیکن کئی ماہ کی جنگوں کے بعد، اقوام متحدہ کے امن فوجی تعینات کیے گئے تھے۔ امن فوجیوں کے اہم ترین فرائض بنیادی ڈھانچے کی حفاظت میں تعاون، سڑکیں کھلی رکھنا اور شہریوں کو جنگی صورت حال سے خبردار کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے امن دستے عام شہریوں پر کیے جانے والے حملوں کو نہ روک سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی کسی علاقے سے جبری بے دخلی کے عمل کے آگے ڈھال بن سکتے ہیں۔

یوکرین میں تو ایسے امن فوجیوں کی تعیناتی کا سوچنا بھی مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر شٹرومائر کے مطابق یوکرین میں امن فوجیوں کا تعینات نہ ہو سکنا کوئی بہت ہی بڑی اور نقصان دہ بات بھی نہیں ہو گی۔ اس لیے کہ کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں ایسے امن دستے آسانی سے جنگی فریقوں کی چالوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے فوجیوں کی عدم موجودگی میں بین الاقوامی امدادی تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں زیادہ مؤثر طور پر اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ یوکرین میں امدادی تنظیموں کا کام اس لیے مقابلتاﹰ آسان ہو گا کہ وہاں دو مختلف ممالک کی پیشہ ور فوجیں آمنے سامنے ہیں، نہ کہ مختلف افریقی ممالک اور خانہ جنگی کے شکار شام میں نظر آنے والے بے شمار مسلح گروہوں جیسے دھڑے، جن کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا بہت مشکل ہوتا تھا۔

سبق: فوجی دباؤ سے زیادہ اہم یہ ہو گا کہ روس پر اخلاقی دباؤ ڈالا جائے۔

جنگ کے دوران تباہی: یوکرینی دارالحکومت کییف کے نواح میں اِرپِن نامی شہر سے مقامی آبادی کے انخلاء کا ایک منظرتصویر: Andrea Filigheddu/NurPhoto/picture alliance

سیاست اور عالمی رائے عامہ: بوسنیا میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک نو فلائی زون قائم کر دیا تھا، جیسا کہ اب یوکرینی حکومت کی طرف سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بوسنیا میں نو فلائی زون کے قیام کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فضائی حملے کسی بھی جنگ میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلح تنازعے میں کسی خطے کی فضائی حدود کو بند کر دینا، جو نو فلائی زون قائم کرنا کہلاتا ہے، روایتی طور پر اس خطے میں فوجی مداخلت کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔

کسی بھی نو فلائی زون میں صرف فضائی پروازیں ہی بند نہیں ہوتیں، بلکہ زمین سے فضا میں فائر کرنا بھی ممنوع ہوتا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے یوگوسلاویہ میں عملی فوجی مداخلت کی مثال کے برعکس، یوکرین میں زیادہ مؤثر اقدام بات چیت کرنا ہو گا۔ عسکری حملہ آور فریق کے خلاف کسی بھی دھمکی کو اپنا دفاع کرنے والا جنگی فریق اپنے لیے پرکشش سمجھے گا اور یہی کشش جنگ میں شدت کا سبب بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی کسی فوجی مداخلت کا عملی امکان کم ہی ہوتا ہے۔

سبق: جو کوئی بھی دنیا کو ایک نئی تباہی سے بچانا چاہتا ہے، اس میں یہ ہمت ہونا چاہیے کہ وہ حملہ آور فریق کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کرے۔

نوربرٹ ماپیس نیڈیک (م م / ع ح)

یوکرین: جنگ سے خوفزدہ بچے

03:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں