سات بنگلہ دیشی سمندر میں ٹھٹھر کر مر گئے، مصری اسمگلر گرفتار
20 فروری 2022
اٹلی میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایک مصری ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کی بحیرہ روم کے راستے لیبیا سے تقریباﹰ تین سو تارکین وطن کو یورپ پہنچانے کی کوشش میں سات بنگلہ دیشی باشندے سمندر میں ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی پولیس کی طرف سے بتایا گیا کہ جس مصری باشندے کو گرفتار کیا گیا ہے، اس پر شبہ ہے کہ اس نے شمالی افریقہ میں لیبیا کے ساحلوں سے سینکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پربحیرہ روم کے راستے انتہائی پرخطر حالات میں یورپ پہنچانے کا اہتمام کیا اور اس دوران متعدد تارکین وطن کھلے سمندر میں سردی سے ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے۔
پولیس کے مطابق اس ملزم نے ایک خستہ حال کشتی میں پناہ کے متلاشی 287 تارکین وطن کو یورپ کی طرف سمندری سفر پر روانہ کیا۔ اطالوی کوسٹ گورڈز نے جب گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو بحیرہ روم کے پانیوں میں اس کشتی میں سوار مہاجرین کو ریسکیو کیا، تو تمام زندہ افراد انتہائی برے حالات میں تھے جبکہ سات بنگلہ دیشی تارکین وطن سردی کی وجہ سے ہلاک ہو چکے تھے۔
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
ملزم پہلے سے سزا یافتہ
مصری ملزم کو، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا مگر جس کی عمر 38 برس ہے، اب گرفتار کیا گیا ہے۔ اٹلی کے جزیرے سسلی کے شہر آگری گینٹو میں پولیس نے بتایا، ''ملزم نے ایک 16 میٹر لمبی خستہ حال کشتی پر 287 تارکین وطن کو سوار کرا کے غیر انسانی حد تک برے حالات میں یورپ اسمگل کرنے کی کوشش کی۔‘‘
پولیس کے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''ملزم کو کشتی کے زندہ بچا لیے جانے والے مسافروں کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا اور اس کی شناخت کی گئی۔ جس وقت پولیس نے ان تارکین وطن کو کھلے سمندر سے ریسکیو کیا، ان کی کشتی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔‘‘
سسلی کی پولیس نے مزید بتایا کہ مشتبہ مصری ملزم پہلے سے سزا یافتہ ہے۔ اسے اٹلی کے اسی جزیرے کی ایک عدالت نے 2011ء میں انسانوں کی اسمگلنگ کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
10 تصاویر1 | 10
اس سال اب تک دو سو سے زائد تارکین وطن ہلاک یا لاپتہ
بحیرہ روم کو غیر قانونی طور پر پار کرنے کے لیے سردیوں میں زیادہ تر بہت خراب موسمی حالات اور منجمد کر دینے والا درجہ حرارت ایسے عوامل ثابت ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے پناہ کے متلاشی افراد یورپ پہنچنے کی کوشش سردیوں کے مقابلے میں گرمیوں میں زیادہ کرتے ہیں۔ تاہم سردیوں میں اس سمندری راستے سے انسانوں کی اسمگلنگ بالکل ہی رک نہیں جاتی۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت آئی او ایم کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے دوران اب تک جو 11 ہزار 986 تارکین وطن پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے، ان میں سے 10 ہزار 570 سمندری راستوں سے یورپی یونین میں داخل ہوئے۔
اس کے علاوہ گزشتہ تقریباﹰ 50 دنوں کے عرصے میں انتہائی پرخطر سمندری سفر کے دوران مجموعی طور پر ایسے 229 تارکین وطن یا تو سمندر میں ٹھٹھر کر یا ڈوب کر ہلاک ہو گئے، یا پھر اپنی کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات کے نتیجے میں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
م م / ک م (اے ایف پی، کے این اے)
سمندر میں ڈوبتے ابھرتے تارکینِ وطن
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔