سات دہائیوں سے چودھری اپنے چوکیدار پال رہا ہے!
11 جون 2020چوکیدار گھر کی حفاظت پر معمور ہوئے تو چودھری بہت مطمئن ہو گیا۔ چوکیداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے چودھری نے ان کی تنخواہیں بھی خوب مقرر کیں اور ہر سال اس میں اضافہ بھی کرتا رہا۔ گھر کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ چوکیداروں پر لگایا جاتا رہا اور یوں چوکیدار اس علاقے کے سب سے طاقتور محافظ بن گئے۔
ہمسایوں میں بھی چوکیداروں کی بہادری کے چرچے ہونے لگے۔ تو انہوں نے بھی اپنی خفاطت کے لیے چوکیدار رکھ لیے۔ پر امن علاقے میں اپنی نوکری بچانے کے لیے چوکیداروں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا اور علاقے میں چھوٹے موٹے فساد بھی کروانے لگے۔ چیونٹی کو ہاتھی سے لڑوانا ہو، ہاتھی کو شیر ثابت کرنا ہو یا شیر کو گیڈر، سب ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ان کی اجازت کے بغیر علاقے میں چڑیا پر بھی نہیں مار سکتی تھی۔ ان ہی کی ایما پر علاقے کے مکین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی ہو جاتے۔
چوکیدار اتنی ترقی کر گئے کہ پہلے انہوں نے اس علاقے میں خوبصورت بنگلے بنائے، پھر سمینٹ کی فیکٹریاں لگا لیں اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کا ہر کاروبار اپنا لیا۔ چوکیداروں نے ہر بڑے عہدے پر نظر رکھنے کے لیے اپنے جاں نشین بھی مقرر کر لیے۔ اپنی مشہوری کے لیے فلمی دنیا میں بھی چوکیداروں نے قدم رکھ دیا۔
بابا جی کو قاضی فائز عیسیٰ کا انتظار تھا
چودھریوں کے چار بیٹے تھے۔ پنجو، سندھو، پی کے اور بلو۔ یوں تو سب ہی ذہین تھے لیکن چودھری کا بڑا بیٹا بلو زیادہ لائق تھا۔ چوکیدار یہ بات بھانپ گئے، انہوں نے اس بیٹے کو چودھری کی نظر میں باغی ثابت کر دیا اور یوں چودھری نے اس بیٹے کی جانب سے اپنی توجہ ہی ہٹا لی۔ چودھری سب سے کم وسائل بلو پر خرچ کرنے لگا جبکہ پنجو،سندھو اور پی کے کو پھر بھی کہیں نہ کہیں برابری دے دی جاتی لیکن بلو ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے برابر ہو گیا۔
ہر سال جب چودھری گھر کا بجٹ بنانے لگتے تو چوکیدار علاقے کی بدامنی کی آڑ میں اپنا حصہ بڑھا لیتے۔ اس صورتحال کے پیش نظر چودھری کے تو چنے ہی بک گئے، شدید مالی بحران اور چودھری کے بچوں کا اسکول بھی چھوٹ گیا۔ گھر کا خرچ بھی قرض لے لے کر پورا ہونے لگا۔ ہر فرد کا بال بال قرض میں ڈوب گیا اور اس سارے عرصے میں چودھری اپنے لیے کوئی مستقل ذریعہ آمدن بھی نہ بنا سکا۔ لیکن چوکیداروں کے تو وارے نیارے تھے۔ چودھری کے گھر کے کئی خوبصورت حصے چوکیداروں نے قبضے میں کر لیے۔ وہاں کن عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچایا جاتا تھا، چودھری مر کر بھی سوال کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ چوہدری کے بیٹوں میں انارکی پھیلنے لگی۔
دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے کئی گھر ترقی کر گئے۔ کسی کے بچے اعلی تعلیم یافتہ ہو گئے تو کوئی خوشحالی میں تمام علاقے کو پیچھے چھوڑ گیا لیکن چودھری سات دہائیوں سے صرف اپنے چوکیدار ہی پال رہا ہے۔ وقت کی ستم ظریفی یہ کہ بیچارے چودھری کا کوئی بیٹا بھی اس قابل نہیں کہ گھر کا بوجھ ہی بانٹ لے۔ چودھری کے اپنے بچے پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن چوکیداروں نے عہد کر لیا ہے کہ وہ ''دشمن کے بچوں کو پڑھائیں گے۔‘‘ اب چوکیدار چودھری ہیں اور چودھری چوکیدار، دیکھیں یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے۔