1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

7 مئی کے پارلیمانی الیکشن، برطانیہ میں انتخابی مہم زوروں پر

عابد حسین7 اپریل 2015

رواں برس کے برطانوی پارلیمانی انتخابات کو خاصا کانٹے دار تصور کیا جا رہا ہے۔ انتخابی مہم میں عالمی امور پر بحث دکھائی نہیں دے رہی اور سیاسی جماعتیں داخلی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

انتخابی مباحثہ میں شریک سیاسی لیڈرانتصویر: Ken McKay/ITV/Handout via Reuters

یہ برطانوی انتخابات کئی حوالوں سے انتہائی اہم تصور کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت کا معاملہ ہے۔ موجودہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون واضح کر چکے ہیں کہ وہ یورپی یونین میں اپنے ملک کی رکنیت برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے ریفرنڈم کروا سکتے ہیں۔ اسی طرح یورپی اتحاد پر شکوک رکھنے والی نئی سیاسی جماعت یونائیٹڈ کنگڈم انڈیپینڈینٹ پارٹی (UKIP) بھی یورپی یونین کی مخالف ہے اور انتخابات کے بعد وہ حکومت سازی میں اہمیت اختیار کر سکتی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اِس وقت کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کو بڑی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی پر معمولی سی سبقت حاصل ہے۔ لیبر پارٹی کی حمایت میں سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی انتخابی مہم میں کود پڑے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سات مئی کے الیکشن کوئی معمول کے انتخابات نہیں کیونکہ خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی امور کی جگہ اِس مرتبہ اسکول، ہسپتال، تعلیم اور ٹیکسوں کا نظام انتہائی زیادہ اہمیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح داخلی معاملات میں اسلامی شدت پسندی کے پھیلتے اثرات کو کنٹرول کرنا بھی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مشکل سوال ہے۔ مبصرین کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سات مئی کے الیکشن سے قبل سیاسی جماعتیں خارجہ پالیسی پر مشکل سے ہی بحث کر سکیں گی۔ برطانیہ میں اِس تبدیلی کے حوالے سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ لندن حکومت عالمی منظر سے اپنے اب تک کے عسکری اور سفارتی کردار سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے۔

لیبر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈ ٹیلی وژن پر انٹرویو دیتے ہوئےتصویر: Reuters/S. Rousseau

پارلیمانی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والے پہلے مباحثے میں شریک سات سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے ملکی قرضوں پر کھل کر گفتگو کی۔ یہ گفتگو ہیلتھ سروس اور امیگریشن پالیسی تک محدود رہی۔ اِس الیکشن مباحثے میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو بات ہوئی، وہ غیر ملکیوں کی برطانیہ آمد اور یورپی یونین کو خیرباد کہہ دینے سے اِس صورت حال میں تبدیلی یا حالات بہتر ہونے کے حوالے سے تھی۔ یورپی یونین میں رکنیت برقرار رکھنے پر ممکنہ قومی ریفرنڈم سن 2017ء میں ہو سکتا ہے۔ اِس ریفرنڈم کا عندیہ ڈیوڈ کیمرون دے چکے ہیں۔

برطانیہ کو بھاری قرضوں کا سامنا ہے۔ اِسی باعث سن 2008 کی عالمی کساد بازاری کے وقت لندن حکومت کو خاصے مشکل مالی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ڈیوڈ کیمرون نے حکومتی اخراجات میں واضح کمی کی ہے۔ اسی طرح برطانیہ کی عسکری قوت میں بھی بتدریج کمی کی جا رہی ہے۔ حاضر فوجیوں کی تعداد میں کمی کے بعد برطانوی فوج کا حجم سن 2018 تک صرف 82 ہزار کے قریب فوجیوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔

کیمرون حکومت کئی اداروں کے اخراجات میں کمی لائی ہے اور خاص طور پر سفارتی شان و شوکت گھٹاتے ہوئے تجارتی امور پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ یورپی یونین اور امریکا کو برطانیہ کے سفارتی اورعسکری کردار میں کمی پر شکایات ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں