سال رواں کا بکر پرائز آئرش مصنف پال لنچ نے جیت لیا
27 نومبر 2023
سال رواں کا بکر پرائز آئرش مصنف پال لنچ نے جیت لیا، جو انہیں ان کے ناول ’پروفیٹ سونگ‘ کی وجہ سے دیا گیا۔ پال لنچ کا یہ ناول ایک ایسی تخیلاتی صورت حال کے بارے میں ہے، جس میں آئرلینڈ مطلق العنانی کا شکار ہو جاتا ہے۔
آئرش مصنف پال لنچ لندن منعقدہ تقریب میں امسالہ بکر پرائز وصول کرنے کے بعد شرکاء سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Alberto Pezzali/AP Photo/picture alliance
اشتہار
اس وقت 46 سالہ پال لنچ کو یہ انعام اتوار 26 نومبر کی رات برطانوی دارالحکومت لندن میں منعقدہ ایک ادبی تقریب میں دے دیا گیا۔ امسالہ بکر پرائز کے لیے مجموعی طور پر چھ ناول نگاروں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، جن میں سے اس انعام کا حقدار پال لنچ (Paul Lynch) کو ٹھہرایا گیا۔
پال لنچ یہ باوقار ادبی انعام جیتنے والے پانچویں آئرش مصنف ہیں۔ ان سے قبل یہ انعام جو چار آئرش مصنفین جیت چکے ہیں، ان کے نام آئرس مرڈوک، جان بین وِل، رَوڈی ڈوئل اور این اینرائٹ ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں یہی انعام سلمان رشدی، مارگریٹ ایٹ وُڈ اور ہلیری مینٹل جیسی مشہور ادبی شخصیات کو بھی دیا جا چکا ہے۔
پال لنچ کو اس سال کے بکر پرائز کے ساتھ 50 ہزار برطانوی پاؤنڈ (تقریباﹰ 63 ہزار امریکی ڈالر) کا نقد انعام بھی دیا گیا۔ یہ پرائز وصول کرتے ہوئے لنچ نے تقریب کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں جس ناول کی وجہ سے یہ اعزاز دیا گیا ہے، ''وہ کوئی آسانی سے لکھی جانے والی کتاب نہیں تھی۔‘‘
سال رواں کا بکر پرائز جیتنے والے آئرش مصنف پال لنچ کے ناول ’پروفیٹ سونگ‘ کا سرورقتصویر: Adrian Dennis/AFP
لندن منعقدہ تقریب کے شرکاء سے اپنے خطاب میں لنچ نے کہا، ''میری ذات کے منطقی حصے کو یقین تھا کہ میں ایسا کوئی ناول لکھ کر جیسے بطور مصنف اپنا کیریئر برباد کر دوں گا، لیکن مجھے یہ یقین بھی تھا کہ مجھے یہ کتاب لکھنا ہی تھی۔ ایسے معاملات میں آپ کے پاس کوئی دوسرا ممکنہ انتخاب ہوتا ہی نہیں۔‘‘
اس آئرش مصنف کو ان کے جس ناول کی وجہ سے 2023ء کا بکر پرائز دیا گیا، اس کا نام 'پروفیٹ سونگ‘ (Prophet Song) یا 'پیغمبر کا گیت‘ ہے۔ یہ تخیلاتی ناول ڈبلن شہر میں مستقبل کے آئرلینڈ میں ایک ایسے ماحول میں لکھا گیا ہے، جو مطلق العنانی سے عبارت ہے اور جس کا بنیادی خیال چار بچوں کی ایک ایسی ماں کی مسلسل جدوجہد ہے، جو اپنے خاندان کو آمرانہ اور خود پسندانہ نظام حکومت سے بچانا چاہتی ہے۔
بُکر پرائز کو عالمی ادب کا آسکر ایوارڈ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1997 میں اروندھتی رائے سے سن 2020 میں ڈگلس اسٹوارٹ تک اس پرائز کو جیتنے والوں کا مختصر احوال اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کریں:۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
اروندھتی رائے
بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے کو بُکر پرائز ان کے ناول The God of Small Things پر سن 1997 میں دیا گیا۔ یہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں سن 1960 کی سیاسی افراتفری کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بھارت میں ذات پات کے نظام، مذہبی تنوع اور بہت گنجلک سماجی درجہ بندیوں میں گندھا ہوا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
مائیکل اونڈاچی
سن 1992 کا بُکر پرائز ’دا انگلش پیشنٹ‘ نامی ناول کے مصنف مائیکل اونڈاچی کو دیا گیا۔ اونڈاچی سری لنکن نژاد کینیڈین شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کا ہے اور اس میں چار زندگیوں کا احاطہ کیا گیا جو ایک اطالوی مکان کے مکین تھے۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی اور اسے سن 1996 میں نو آسکر ایوارڈز ملے تھے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/R. Tang
مارگریٹ ایٹ وُوڈ
سن 2000 میں کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ وُوڈ کو ان کی بہترین تخلیق The Handmaid's Tale پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ کئی پرتوں والی ایک کہانی پر مشتمل ہے، جسے ماضی سے حال کو کہانی اور حقیقت کی روایت سے بُنا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Calabrese
ہِلیری مینٹل
سن 2012 میں ناول ’وولف ہال‘ کی مصنفہ ہِلیری مینٹل کو ناول Bring up the Bodies کو بکر پرائز دیا گیا۔ برطانوی ادیبہ وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جو دو مرتبہ بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ ان کے ایک اور ناول ’وولف ہال‘ کو بھی اس پرائز سے نوازا گیا تھا۔ ناول ’برنگ اپ دی باڈیز‘ میں ٹیوڈر خاندان کے بادشاہ ہنری ہشتم کی بیٹے کی خواہش کو سمویا گیا ہے اور یہ ٹیوڈر دور کا تاریخی تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رچرڈ فلانیگن
سن 2014 میں بکر پرائز آسٹریلین ناول نگار رچرڈ فلانیگن کو ان کے ناول The Narrow Road to the Deep North پر دیا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی واقعات پر مبنی ناول ہے اور اس کا منظر نامہ دوسری عالمی جنگ میں تھائی لینڈ برما ڈیتھ ریلوے پر مبنی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک آسٹریلین سرجن کا ہے، جو لوگوں کو بھوک، ہیضہ اور تشدد سے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔
جارج سانڈرز
سن 2017 میں امریکی کہانی کار جارج سانڈرز کے طویل ناول ’لنکن ان دا بارڈو‘ کو اس معتبر انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بُکر پرائز کی جیوری نے اس ناول کو تجرباتی اور اختراعی قرار دیا تھا۔ اس ناول میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی روح اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے جسم کو دیکھنے جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Tang
برنارڈین ایوارسٹو
سن 2019 میں برطانوی ادیبہ برنارڈین ایوارسٹو کو ان کے ناول Girl, Woman, Other کی وجہ سے بکر پرائز دیا گیا۔ وہ پہلی سیاہ فام ادیبہ ہیں جو بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی تھیں۔ اس ناول میں برطانیہ پہنچنے والے بارہ افراد کے مختلف نسلوں اور سماجی طبقات سے متعلق تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ڈگلس اسٹوارٹ
سن 2020 میں اسکاٹش نژاد امریکی ادیب ڈگلس اسٹوارٹ کو ان کے اولین ناول Shuggie Bain پر بُکر پرائز دیا گیا۔ اس ناول کو لکھنے میں اسٹوارٹ نے دس برس صرف کیے اور اس کا مسودہ بتیس مرتبہ مختلف اشاعتی اداروں نے مسترد کیا تھا۔ یہ ناول کسی حد تک ایک خود نوشت ہے اور اس میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک ہم جنس پسند کی جدوجہد کو سمویا گیا ہے۔
تصویر: Grove/AP/picture alliance
Damon Galgut - 'The Promise' (2021)
ڈیمن گالگوٹ
سن 2021 میں جنوبی افریقی ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ناول The Promise پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ وہ قبل ازیں دو مرتبہ شارٹ لسٹ بھی کیے گئے تھے۔ اس ناول میں گالگوٹ نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسے سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کا احوال بیان کیا ہے، جو اپنی والدہ سے اس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ اسے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیت زمین پر ایک مکان دینا چاہیے۔
تصویر: David Parry/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
'پروفیٹ سونگ‘ مصنف پال لنچ کا پانچواں ناول ہے۔ امسالہ بکر پرائز کی پانچ رکنی جیوری کی کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ناول نگار ایسی ایدُگین نے کہا کہ جیوری نے اس سال کے بکر پرائز کا حق دار پال لنچ کے ٹھہرانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ان کا ''یہ ناول بہت تکلیف دہ حالات میں انسانی جدوجہد کی کہانی کو بڑے جذباتی انداز میں لیکن بڑی بہادری سے بیان کرنے کے عمل کی فتح ہے۔‘‘
جیوری کی سربراہ اور کینیڈین ناولسٹ ایدُگین کے الفاظ میں، ''اپنے مناظر کی شفافیت کے ساتھ اور داستان گوئی کی باہمت جذباتیت کے ساتھ، 'پیغمبر کا گیت‘ ان تمام سماجی اور سیاسی پریشانیوں اور بے چینیوں کا احاطہ کرتا ہے، جو ہمارے موجودہ عہد کی پہچان بن چکی ہیں۔‘‘
اس سال بکر پرائز کے لیے جن چھ ادیبوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، ان میں پال لنچ کے علاوہ آئرلینڈ ہی کے ایک اور مصنف کا نام بھی شامل تھا جبکہ باقی چار میں سے دو کا تعلق امریکہ سے، ایک کا کینیڈا سے اور ایک کا کینیا سے تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام چھ ادیبوں کے نام اس سے پہلے بکر پرائز کے لیے کبھی شارٹ لسٹ نہیں کیے گئے تھے۔