سال رواں کا معیشت کا نوبل انعام تین امریکی ماہرین کے نام
11 اکتوبر 2021
سال رواں کا معیشت کا نوبل انعام تین امریکی ماہرین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے کینیڈین امریکی ماہر اقتصادیات نے اپنی منفرد تحقیق سے روزگار کی منڈی، تعلیم اور تارکین وطن سے متعلق کئی عمومی مفروضے غلط ثابت کیے۔
اشتہار
رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے پیر گیارہ اکتوبر کو سٹاک ہوم میں کیے گئے اعلان کے مطابق امسالہ نوبل انعام برائے اقتصادیات کینیڈا میں پیدا ہونے والے اور امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے ماہر ڈیوڈ کارڈ، میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے جوشوآ اینگرسٹ اور نیدرلینڈز میں پیدا ہونے والے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے گیڈو اِمبینز کو مشترکہ طور پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
16 تصاویر1 | 16
ڈیوڈ کارڈ کی منفرد تحقیق
ان تین ماہرین میں سے کینیڈین امریکی ڈیوڈ کارڈ کو امسالہ نوبل انعام کے نصف حصے کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔
اشتہار
اس کی وجہ ان کی وہ انتہائی اہم اور منفرد نوعیت کی تحقیق بنی، جس نے اقتصادی شعبے کے اب تک کے کئی عمومی مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا۔
ڈیوڈ کارڈ کی تحقیق کے مطابق کارکنوں کی کم از کم تنخواہوں میں اضافے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ اپنے ہاں نئے کارکنوں کی بھرتی بھی لازمی طور پر کم کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے برکلے کیمپس سے وابستہ اس ماہر اقتصادیات نے یہ بھی ثابت کیا کہ تارکین وطن کو کارکنوں کے طور پر ملازمتیں دینے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں کسی بھی معاشرے میں مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت کی تنخواہیں کم ہو جائیں گی۔
ڈیوڈ کارڈ کو معیشت کے نوبل انعام کے نصف حصے کا حق دار اس وجہ سے ٹھہرایا گیا کہ ان کی اقتصادی تحقیق نے اپنے نتائج کے ذریعے روزگار کی منڈی، تعلیم اور تارکین وطن کارکنوں سے جڑے کئی عمومی اقتصادی مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا، حالانکہ ایسا کرنا تحقیقی حوالے سے ایک بڑا چیلنج تھا۔
1901ء سے جب سے نوبل انعام دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مختلف حلقے اس بارے میں ایک دوسرے سے بالکل الگ موقف رکھتے ہیں۔ نوبل تاریخ کی اب تک کی متنازعہ ترین لمحات کی تصاویر۔
تصویر: AP
کھاد بھی اور کیمیائی ہتھیار بھی
نوبل انعام کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اختلافی فیصلہ جرمن کیمیا دان فرٹز ہابر کو نوبل انعام سے نوازنہ تھا۔ انہیں 1918ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے امونیا کا ایسا مرکب ایجاد کیا، جسے کھاد بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہابر کو’’ کیمیائی ہتیھاروں کا خالق‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ ان کی ایجاد کردہ کلورین گیس پہلی عالمی جنگ میں بڑی تباہی کا باعث بنی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہلاکت خیز ایجاد
جرمن سائسندان اوٹو ہان (درمیان میں) کو جوہری انشقاق کی دریافت پر 1945ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے اپنی اس ایجاد کو عسکری شعبے میں استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیق نہیں کی تھی تاہم اسے براہ راست جوہری بم بنانے میں استعمال کیا گیا۔ نوبل کمیٹی انہیں 1940ء میں نوبل انعام دینا چاہتی تھی لیکن انہیں ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیے جانے والے حملوں کے بعد 1945ء میں یہ اعزاز دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/G. Rauchwetter
ایک ایجاد پر پابندی
سوئس محقق پاؤل مؤلر کو 1948ء میں ’ڈی ڈی ٹی‘ بنانے پر طب کو نوبل انعام دیا گیا۔ ’ڈی ڈی ٹی‘ کیڑے مار دوا ہے، جو ملریا جیسی دیگر بیماریوں پر قابو پانے میں قدرے مددگار ثابت ہوئی۔ اس نے دوسری عالمی جنگ اور بعد کے دور میں بہت لوگوں کی جان بچائی لیکن تحفظ ماحول کی تنظیموں کا خیال ہے کہ یہ ایجاد انسانی صحت اور جنگلی حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے بعد ڈی ڈی ٹی کے زرعی استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UN
پریشان کن ایوارڈ
جرمن امن پسند کارل فان اوسیتزکی کو اسلحہ سازی کےخفیہ جرمن منصوبے کو فاش کرنے پر 1935ء میں امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ کارل فان اوسیتزکی کو غداری کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ ہٹلر نے نوبل کمیٹی پر جرمن معاملات میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا۔
تصویر: Bundesarchiv 183-R70579
شدید تنقید اور احتجاجاً استعفے
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنگر اور شمالی ویتنام کے رہنما ’لے ڈک تھو‘ کو امن کا نوبل انعام دینے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 1973ء کے اس فیصلے پر نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ ان دنوں کو فائر بندی کی کوششوں پر یہ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ تھو نے تو اسے لینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسنگر کے ایک نمائندے نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اس فیصلے کے بعد بھی جنگ مزید دو سال جاری رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آزاد خیال اور آمر سے روابط
آزاد منڈیوں کی وکالت کرنے والے ملٹن فریڈمین کو معاشیات کا نوبل انعام دینے کو متنازعہ ترین فیصلوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فریڈمین کے چلی کے آمر آگستو پینوشے کے ساتھ روابط کی وجہ سے دنیا بھر میں بائیں بازو کے حلقوں نے 1976ء کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی نظریات سے متاثر ہو کر چلی کی حکومت نے لوگوں پر تشدد شروع کیا اور کئی ہزار افراد لاپتہ ہو گئے۔
تصویر: PD
مبہم امن انعام
1994ء میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور وزیر خارجہ شیمون پیریز کو مشترکہ طور پر امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس کا مقصد مشرقی وسطٰی امن منصوبے میں تیزی لانا تھا۔ تاہم اس سے بات چیت کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑا اور ایک سال بعد ایک اسرائیلی قوم پرست نے رابن کو قتل کر دیا۔ نوبل کمیٹی کے ایک رکن نے یاسر عرفات کو’ دہشت گرد‘ کہتے ہوئے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
تصویر: Jamal Aruri/AFP/Getty Images
فرضی یادداشت اور نوبل انعام
قدیم مایا نسل کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ریگوبیرتا مینچُونے 1992ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ انہیں سماجی انصاف اور نسلی و ثقافتی مفاہمت کے لیے ان کی کوششوں پر اس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ تاہم یہ فیصلہ اس وقت کافی متنازعہ ثابت ہوا، جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ شائع ہونے والی ان کی یادداشت جزوی طور پر فرضی ہے۔ بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اس ایوارڈ کی بالکل بھی حقدار نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
قبل از وقت امتیاز
امریکی صدر باراک اوباما کو 2009ء میں ملنے والے امن کے نوبل انعام نے بہت سے حلقوں کو حیران کر دیا تھا اور حیران ہونے والوں میں اوباما خود بھی شامل تھے۔ انہیں بین الاقوامی سفارت کاری اور اقوام کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کے ان کے ارادوں پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ناقدین اور اوباما کے حامیوں کا موقف تھا کہ انہیں یہ ایوارڈ اس وقت دینا چاہیے تھا کہ جب ان کے منصوبوں کے نتائج سامنے آتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بعد از مرگ اعتراف
2011ء میں طب کا نوبل انعام جولیس ہوف، بروس بؤٹلر اور رالف اشٹائن مین کو نئے’ امیون سسٹم سیل‘ کی دریافت پر مشترکہ طور پر نوبل انعام برائے طب دیا گیا۔ اعلان سے چند دن قبل اشٹائن مین کا سرطان کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ قانون کے مطابق بعد از مرگ کوئی بھی نوبل انعام وصول نہیں کرسکتا۔ تاہم نوبل کمیٹی یہ کہتے ہوئے اشٹائن مین کے حق میں فیصلہ کیا کہ نامزدگی کے وقت انہیں اس سائنسدان کی موت علم نہیں تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rockefeller University
ایک بڑی غفلت
نوبل انعام اپنی نامزدگیوں اور اصل حقداروں کو نظر انداز کیے جانے کے حوالوں سے متنازعہ رہے ہیں۔ بھارت میں پر امن تحریک کے بانی گاندھی کو پانچ مرتبہ اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا مگر ایک مرتبہ بھی فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا۔ 2006ء میں ناروے کی نوبل کمیٹی کے گیئر لنڈےسٹاڈ نے کہا ’’ نوبل انعام کی 106 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کو امن کا نوبل انعام نہیں دیا گیا۔‘‘
تصویر: AP
11 تصاویر1 | 11
جوشوآ اینگرسٹ اور گیڈو اِمبینز کی منفرد ریسرچ
امسالہ نوبل انعام کے دوسرے نصف حصے کے حق دار قرار دیے گئے جوشوآ اینگرسٹ اور ڈچ نژاد امریکی ماہر اقتصادیات گیڈو اِمبینز کو یہ عالمی اعزاز دینے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ انہوں نے سوشل اکانومی سے متعلق ایسے موضوعات پر اپنی گراں قدر تحقیق مکمل کی، جن کے لیے انہوں نے روایتی طور پر مروجہ سائنسی طریقہ ہائے کار سے انحراف کرتے ہوئے منفرد نتائج حاصل کیے۔
اس سال نوبل انعام کی حق دار ٹھہرائی گئی دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ ان تینوں ماہرین میں سے ہر ایک کو بھی دسمبر میں منعقد ہونے والے ایک مرکزی تقریب تقسیم انعامات میں نوبل گولڈ میڈل دیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ ان تینوں کو مجموعی طور پر 10 ملین سویڈش کرونے یا 1.14 ملین امریکی ڈالر کے برابر نقد انعام بھی دیا جائے گا۔ اس میں سے نصف رقم ڈیوڈ کارڈ کو ملے گی جبکہ باقی ماندہ نصف نقد انعام اینگرسٹ اور اِمبینز میں برابر تقسم کیا جائے گا۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
روزگار اور پیشے
جرمن نوجوان سب سے زیادہ بزنس ایجوکیشن کی تربیت حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے شعبے ایسے ہیں، جن میں تربیت حاصل کرنے کا ایک مزہ بھی ہے اور یہ فائدہ مند بھی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے کچھ کی تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
کُوپر یا شراب کے ڈرم بنانے والا ’کپی گر‘
شراب کے ڈرم بنانا سیکھنا ایک غیر معمولی کام ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران جرمنی میں بہت کم ہی نوجوانوں نے اس تربیت میں دلچسپی لی ہے۔ اس دوران لکڑیوں کی مختلف اقسام سے شراب محفوظ کرنے کے لیے ڈرم بنانا اور بالٹیاں تیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lösel
شراب کا ماہر
یہ تربیت مکمل کرنے والے کو شراب کشید کرنے کا ماہر کہا جاتا ہے۔ اس دوران یہ الکوحل کی مختلف اقسام کو تیار کرتے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ کس مائع کو کتنے درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر ایسی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں، جہاں شراب تیار کی جاتی ہے۔ 2012ء سے اب تک اس شعبے میں صرف بارہ نوجوانوں نے دلچسپی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. von Erichsen
فولادی گھنٹیاں بنانے والا
پندرہ نوجوانوں نے ایک ہی سال میں فولادی گھنٹیاں بنانے کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس دوران انہیں سکھایا گیا کہ کس طرح مختلف اجزاء اور استعمال شدہ اشیاء کو دھات میں تبدیل کیا جاتا ہے، انہیں ٹھیک کس طرح کیا جاتا ہے اور انہیں دوبارہ قابل استعمال کس طرح بنایا جاتا ہے۔ یہ نوجوان گرجوں کی گھنٹیاں ہی نہیں بناتے بلکہ بحری جہازوں میں استعمال کی جانے والی گھنٹیاں بھی بناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/K.-D. Gabbert
موسیقی پر اداکاری
اسٹیج کا پردہ ہٹا اور سرچ لائٹ آپ پر پڑی۔ اس دوران آپ نے گانا شروع کیا اور دیکھنے والوں نے تالیوں کی گونج میں داد دی۔ لیکن اسٹیج پر کھڑے ہو کر ایسی پرفارمنس دینا کوئی آسان کام نہیں اور یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں۔ موسیقی پر اداکاری کے گر سیکھنے کے لیے تین سال کی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اس دوران گانا اور رقص سیکھنا پڑتا ہے اور دوران تربیت کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Perrey
شہد کی مکھیاں پالنا
اس پیشے کو اختیار کرنے والے نوجوانوں کو شہد کی مکھیوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جاتی ہیں کہ وہ کس طرح رہتی ہیں؟ ان کی بناوٹ اور ان کی نفسیات کےبارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔ اکثر طالب علم انٹرمیڈیٹ کے بعد یہ تربیت شروع کرتے ہیں حالانکہ اس کے لیے انہیں انٹرمیڈیٹ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
وائلن گر
پیشہ ورانہ ترییت کے اس اسکول میں طالب علموں کو ریاضی اور طبیعات جیسے موضوعات میں سر کھپانا نہیں پڑنا بلکہ انہیں سیدھے سیدھے ان مادوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے جن کی مدد سے وہ ایک وائلن تیار کر سکتے ہیں۔ وائلن کو جن مادوں کی مدد سے چمکایا جاتا ہے، وہ ہر وائلن ساز کے ہاں الگ الگ ہوتی ہیں۔ یہی مادے اس ساز سے نکلنے والی آواز کو منفرد بناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/PAP/J. Kacmarczyk
پتھر کا کام کرنے والے
یادگاروں کی تجدید ہو یا کوئی کتبہ بنانا ہو یا پھر پتھروں سے فرش بچھانا ہو پتھر کا کام سیکھنے والوں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس تربیت کے دوران قدرتی اور مصنوعی کے علاوہ ہر قسم کے پتھر کے ساتھ کام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ لوگ فواروں اور مجسمے بنانےکے بھی ماہر ہوتے ہیں۔