سال نو پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے جلوسوں پر پابندی
30 دسمبر 2016کولون پولیس کے سربراہ یُرگن ماتھیز نے کہا کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل پارٹی آف جرمنی (این پی ڈی) اور مہاجرین مخالف عوامیت پسند جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ (اے ایف ڈی) نے نئے سال کے موقع پر کولون میں جلوس نکالنے کی درخواست کی تھی تاہم اُنہیں اس کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ماتھیز نے کہا کہ اس اقدام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ’سیاسی سوچ کے اظہار پر پابندی‘ لگانا چاہتے ہیں بلکہ اُنہیں ’صرف اور صرف اس بات پر تشویش‘ ہے کہ ان جلوسوں سے نہ صرف ان کے شرکاء کی بلکہ موقع پر موجود راہگیروں کی بھی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اپن پی ڈی کو جلوس نکالنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کولون پولیس نے منگل کے روز ہی کر دیا تھا۔ اس اعلان کے بعد دائیں بازو کی اس انتہا پسند جماعت نے کولون کی انتظمی عدالت سے رجوع کر لیا، جس نے پولیس کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوام کی حفاظت کے حوالے سے پائی جانےوالی تشویش کے پیشِ نظر ’اس خاص موقع کے لیے‘ این پی ڈی کے اجتماع کی آزادی کے حق کو ختم کیا جانا پڑے گا۔
پولیس کا کہنا یہ تھا کہ اُس کے پاس اتنی نفری نہیں ہے کہ وہ ایک طرف سالِ نو کے موقع پر جمع ہونے والے اجتماع کو کنٹرول کر سکے اور ساتھ ساتھ این پی ڈی کے مظاہرین کو بھی حفاظت فراہم کر سکے۔ اس سے پہلے متعدد گروپوں کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ اگر این پی ڈی کو مظاہرے کی اجازت دی گئی تو پھر وہ بھی جوابی مظاہرے کریں گے۔
اے ایف ڈی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اُس کے دَس تا پندرہ ارکان ہی اس مظاہرے میں شرکت کریں گے تاہم سلامتی کی خصوصی صورتِ حال ہی کے باعث اُنہیں بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا اے ایف ڈی بھی اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابھی این پی ڈی کے پاس بھی زیادہ بڑی عدالت سے رجوع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
نسل پرستی کے خلاف سرگرم تنظیم ’کولون اگینسٹ رائٹ‘ کا این پی ڈی پر الزام یہ ہے کہ وہ سالِ نو کے موقع پر موجود ملکی اور غیر ملکی ہجوم کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن جنسی حملوں اور لُوٹ مار کو حد سے زیادہ نمایاں کرنا چاہتی ہے، جو گزشتہ سال اکتیس دسمبر کی رات کو عمل میں آئے تھے اور جن کا نشانہ سینکڑوں نوجوان جرمن خواتین بنی تھیں۔
یہ حملے ایسے نوجوانوں کی جانب سے کیے گئے تھے، جو مبینہ طور پر عرب دنیا اور شمالی افریقی خطّے سے تعلق رکھتے تھے۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے انہی واقعات کا حوالہ دے کر عوام میں مہاجرین مخالف جذبات کو ہوا دینے کی کوشش کی۔
ایک سال پہلے انہی واقعات کی بناء پر سخت عوامی تنقید کا نشانہ بننے والی پولیس نے اس سال ایسے ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے لیے کولون میں اپنے تقریباً پندرہ سو اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور مختلف مقامات پر بھاری رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔