سال 2010ء ، سزائے موت کی تعداد میں کمی
28 مارچ 2011ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ کا اجراء پیر کو لندن میں کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تئیس مختلف ممالک میں سزائے موت دیے جانے کے معلوم واقعات کی تعداد 527 بنتی ہے جبکہ 2009ء کے دوران یہ تعداد 714 ریکارڈ کی گئی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تاہم کہا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ چین میں سزائے موت دیے جانے کے واقعات ہزاروں میں ہوں لیکن بیجنگ حکومت نے درست اعدادوشمار پنہاں رکھے ہوں۔ گزشتہ دس دہائیوں کے دوران اکتیس ممالک میں سزائے موت ختم کی جا چکی ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی نئی رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں سب سے زیادہ سزائے موت سنائی جاتی ہے، ان میں چین، مصر، سعودی عرب اور یمن سر فہرست ہیں۔ ادارے کے بقول گزشتہ برس چین، مصر،انڈونیشیا، ایران، لاؤس، لیبیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یمن میں سزائے موت دی جانے کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی۔
رپورٹ کے مطابق ایران میں 252، یمن میں 53 جبکہ امریکہ میں 46 افراد کو موت کی سزا دی گئی۔ گزشتہ برس زیادہ تر منشیات کے جرم پر سب سے زیادہ سزائے موت دی گئیں۔ اس کے باوجود ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران مختلف ممالک میں سزائے موت کے حوالے سے بہتری دیکھی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل 1961ء میں قائم کیا گیا تھا، اس وقت صرف نو ممالک ایسے تھے، جہاں مکمل طور پر سزائے موت پر پابندی تھی۔ اس ادارے نے دیگر انسانی حقوق کے پرچار کے علاوہ بالخصوص موت کی سزا کے خلاف بھی مہم شروع کی۔ اسی وجہ سے اب دنیا کے اکتیس ممالک اس سزا کو ختم کر چکے ہیں۔ اس وقت امریکہ کی سولہ ریاستوں میں بھی سزائے موت دیے جانے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد