1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

سال 2016ء خواجہ سراؤں کے لیے کیسا رہا؟

عنبرین فاطمہ، کراچی
26 دسمبر 2016

پاکستان میں جو صنف سب سے زیادہ منفی معاشرتی اور سماجی رویوں کا شکار رہی ہے، وہ ہے تیسری جنس یعنیٰ خواجہ سرا۔ پاکستان میں اس جنس کے لیے سال 2016 بھی پُرتشدد اور امتیازی سلوک کا حامل سال رہا۔

Pakistan Transgender Protest in Islamabad
تصویر: Urooj Raza

اس برس رونما ہونے والے چند واقعات نے عوام کی توجہ خواجہ سراؤں کے مسائل اور ان کی زندگی کی جانب ضرور مبذول کروائی جس کا بڑا سہرا میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے سر رہا۔ ان واقعات پر اک نظر:

علیشا کا قتل:

مئی کے مہینے میں علیشا نامی خواجہ سرا پر پشاور میں قاتلانہ حملے اور پھر علاج کے بجائے ہسپتال میں کیے جانے والے سلوک پر صرف خواجہ سرا برادری ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں بھی سراپا احتجاج نظر آئیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی سرگرم رکن علیشا کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر پشاور سے تھا جہاں انہیں مسلح افراد نے فائرنگ کر کے زخمی کردیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہو گئیں۔ اس واقعے کا ایک افسوسناک پہلو ہسپتال میں ان کے ساتھ ہونے والا سلوک تھا، جہاں میڈیا رپورٹوں کے مطابق، ڈاکٹر علیشا کے ساتھ آنے والے خواجہ سراؤں سے پوچھتے رہے کہ کیا وہ صرف ڈانس کرتے ہیں؟ اور وہ بطور معاوضہ کتنے پیسے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساتھی خواجہ سراؤں کو علیشا کے لیے ایک الگ کمرہ لینا پڑا کیوں کہ ڈاکٹرز اُسے نہ مردانہ اور نہ ہی زنانہ وارڈ میں رکھنے پر راضی تھے۔ میڈیا، خصوصاً سوشل میڈیا پر اس واقعے نے پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ  رویوں پر کئی سوال اٹھائے۔

معاشرتی بے حسی کا شکار ’دیوانی‘

اس برس ایک نجی نیوز چینل کے زریعے سامنے لائی گئی ایک اور خواجہ سرا کی حالت زار نے عوام کو ایک بار پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پشاور کی ایک سڑک پر کوڑے کے ڈھیر کے قریب پڑاو ڈالے ہوئے’دیوانی‘ نامی خواجہ سرا، ٹی بی اور ایڈز جیسے امراض کا شکار تھی۔ اپنے خاندان اور گرو کی جانب سے اس بیماری کے باعث ٹھکرائے جانے کے بعد کوڑے کا ڈھیر ہی دیوانی کا ٹھکانہ بنا۔ دیوانی کی حالت زار میڈیا پر نشر ہونے کے بعد خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی مدد کے زریعے دیوانی کو حیات آباد کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ چار دن زندگی و موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد دم توڑ گئی۔

دیوانی کو حیات آباد کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ چار دن زندگی و موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد دم توڑ گئیتصویر: Trans Action Khyber Pakhtunkhwa

وائرل وڈیو کے زریعے انصاف:

پاکستان میں خواجہ سرا کس طرح کے ظلم سہنے پر مجبور ہیں، اس کی ایک جھلک نومبر کے مہینے میں سوشل میڈیا کے زریعے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں خواجہ سرا پر تشدد کی ایک وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر ’وائرل‘ ہوئی جس میں شنایا نام کی خواجہ سرا کو ایک شخص اپنے ساتھیوں کے سامنے چارپائی پر الٹا لٹا کر بیلٹ سے زد و کوب کرتا دکھائی دیا۔ گردن پر پیر رکھ کر خواجہ سرا کے نچلے حصے کو برہنہ کر کے بنائی جانے والی اس تضحیک آمیز ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سماجی اور عوامی سطح پر آنے والے دباؤ نے پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری پر مجبور کر دیا اور اب یہ ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔

ڈرامے کے زریعے رویوں میں تبدیلی کی کوشش:

پاکستانی ڈراموں میں گزشتہ چند برسوں سے خواجہ سراؤں کے کردار اب تک یا تو غیر سنجیدہ انداز میں دکھائے جاتے رہے ہیں یا پھر انہیں بھرتی کے کرداروں کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس برس پاکستان کے ایک نجی چینل اے آر وائی پر پہلی بارخواجہ سراؤں کے موضوع پر ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ ’خدا میرا بھی ہے‘ نامی اس ڈرامے کے ذریعے خواجہ سراؤں کی زندگی کی حقیقتوں کی عکاسی کی جارہی ہے اور ان کے ساتھ معاشرے میں ہونے والے متعصبانہ اور امتیازی سلوک کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پہلی خواجہ سرا ماڈل:

پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں نئی ماڈلز کی آمد کوئی خاص ہلچل تو نہیں مچاتی لیکن 2016ء میں ’کامی سڈ‘ کی ماڈل کے طور پر نئی پہچان نے صرف مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی توجہ حاصل کی۔ اس کی وجہ سماجی حلقوں میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواجہ سرا ، کامی سڈ کی شخصیت ہے جنہوں نے ملک کی پہلی ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا ماڈل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

اس برس خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کا سلسلہ زیادہ دیکھا گیاتصویر: Urooj Raza

'مورت ایک قدرت'

2016ء خواجہ سراؤں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک منفرد سال رہا اور بات صرف ٹی وی ڈرامے اور ماڈل تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کے مسائل پر مبنی ایک منفرد ریڈیو پروگرام 'مورت ایک قدرت' اسلام آباد کے مقامی ایف ایم اسٹیشن سے شروع کیا گیا ہے۔ پروگرام کی میزبان ایک خواجہ سرا، ندیم کشش ہیں جو تیسری جنس کے خلاف کئی طرح کے امتیازی رویوں کی تبدیلی کے لیے آگاہی دے رہی ہیں۔

خواجہ سراؤں کے لیے مسجد:

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی جانب سے پہلی بار ملک میں ایک مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ہے جس میں ان کے بقول کوئی بھی بلا جھجھک داخل ہو کر اپنے مذہبی فرائض ادا کر سکے گا۔ دارالحکومت اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے میں تعمیر کی جانے والی اس جامعہ مسجد میں کم از کم ایک ہزار افراد کے لیے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گی۔ اس کے علاوہ مسجد میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا جائے گا۔

خواجہ سرا اور شادی سے متعلق فتویٰ:

گو کہ خواجہ سرا سے شادی یا خواجہ سرا کی شادی کا معاملہ ہمیشہ سے پیچیدہ تصور کیا گیا ہے تاہم اس برس پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 50 سے زائد مفتیوں نے فتویٰ دیا ہے کہ خواجہ سراؤں کا نکاح شرعی طور پر جائز ہے۔ یہ فتوی تنظیم اتحاد امت پاکستان کی اپیل پر جاری کیا گیا ہے۔ فتوی کے مطابق ’ایسا خواجہ سرا جن میں جسمانی طور مردانہ علامات پائی جاتی ہوں ان کا ایسے خواجہ سرا سے نکاح جائز ہے جس میں زنانہ علامات موجود ہوں‘ فتویٰ کے مطابق واضح علامات والے خواجہ سراؤں سے عام مرد اور عورت بھی نکاح کر سکتی ہیں۔ تاہم مفتیوں نے یہ واضح کیا کہ ’جن خواجہ سراؤں میں مرد اور عورت والی دونوں علامتیں ہوں ان سے نکاح جائز نہیں ہے۔‘

2016ء میں ’کامی سڈ‘ کی ماڈل کے طور پر نئی پہچان نے صرف مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی توجہ حاصل کیتصویر: Muhammad Haseeb Siddiqui

مردم شماری میں شامل کیے جانے کی درخواست:

لاہور ہائی کورٹ نے ملک میں آئندہ برس ہونے والی مردم شماری کے عمل میں خواجہ سراؤں کی تعداد کے تعین کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب مانگ لیا ہےاور اس درخواست کی سماعت جاری ہے۔ اس درخواست میں خواجہ سراؤں کو مردم شماری کے عمل میں ملکی آبادی کا حصہ ظاہر نہ کرنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ درخواست گزار وکیل نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے اندر جتنی مرتبہ بھی مردم شماری ہوئی ہے، خواجہ سراؤں کی تعداد کا کبھی بھی تعین نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے آئندہ برس مارچ میں مردم شماری کرانے کا اعلان کر رکھا ہے اور یہ مردم شماری لگ بھگ 18 برس کے وقفے کے بعد ہو رہی ہے۔ واضع رہے کہ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ملک میں خواجہ سراوں کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ سرکاری سطح پر مردم شماری میں نظر انداز کر دینے کے باعث ان کی تعداد کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔

عدالت میں حقوق کے لیے درخواستیں دائر:

اس برس خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کا سلسلہ زیادہ دیکھا گیا۔ اسی سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ نے خواجہ سراؤں کی تدفین کے لیے قبرستان میں جگہ کی فراہمی سمیت دیگر بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے ہیں۔ یہ نوٹس وفاقی حکومت، نادرا اور ادارے شماریات کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی جانب سے وکیل شیراز ذکا نے انکشاف کیا کہ قبرستان میں جگہ نہ ملنے کی وجہ خواجہ سراؤں کی تدفین میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق خواجہ سراؤں کی آخری رسومات کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کوئی حامی نہیں بھرتا۔ اس کے علاوہ ملازمت میں دو فیصد کوٹا مختص ہونے کے باوجود بے روزگاری، مردم شماری میں خواجہ سراؤں کو آبادی میں شمار نہ کرنے، وفاقی حکومت کو خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے قانون سازی کرنے اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔

صوبے کی جانب سے تاریخی فنڈز مختص:

خواجہ سراؤں کو قومی دھارے میں لانے اور ان میں فنی مہارت پیدا کرنے کے لیے اس برس خیبر پختونخوا کی حکومت نے تجویز دی ہے کہ خواجہ سراؤں کو ناچ گانے کی بجائے سلائی کڑھائی کی طرف راغب کیا جائے تاکہ وہ مفید شہری بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سالانہ بجٹ میں 20 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا۔

حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں خواجہ سرائوں کے ناچ گانے پر پابندی عائد کردی گئیتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

تشدد کے واقعات:

2016 میں خواجہ سراؤں کے خلاف جنسی اور جسمانی تشدد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ واقعات صوبہ خیبر پختونخواہ میں پیش آئے جہاں سال کی ابتدا سے اب تک خواجہ سراؤں پر ے کے تقریباً 50 سے زائد کیسس رپورٹ ہوئے ہیں۔

انتخابات میں خواجہ سرا امیدوار:

اس برس پہلی دسمبر کو پنجاب کے ضلع جھنگ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں شہر کی تاریخ میں پہلی بار ایک خواجہ سرا امیداوار نے بھی حصہ لیا۔ میڈم بوٹا نام کی امیدوار گو کہ اس انتخاب میں کامیاب نہیں ہو سکیں تاہم شہر کی پہلی خواجہ سرا امیدوار ہونے کا اعزاز انہیں ضرور حاصل ہوا۔

ایوان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گونج:

پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے ملک بھر سے خواجہ سرا برادری کے نمائندوں کو دعوت دی ہے کہ وہ کمیٹی میں آ کر ان کو درپیش مسائل سے متعلق کمیٹی کے ارکان کو آگاہ کریں۔ گو کہ ملاقات کے لیے کمیٹی کی جانب سے تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم اس برس پارلیمان کی جانب سے اس اقدام کو خواجہ سرا کمیونٹی کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔

مجرے پر پابندی:

حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں خواجہ سرائوں کے ناچ گانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان پروگرامز سے علاقے کا امن متاثر ہورہا ہے اور اکثر اوقات نوجوانوں کے درمیان اس کے معاملے پر لڑائیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے پروگرامز میں شراب نوشی کے ساتھ اسلحہ کی بھی نمائش کی جاتی ہے۔ نوٹی فیکیشن میں کہا گیا ہے کہ پابندی علاقے کے منتخب نمائندوں اور عمائدین کی درخواست پر لگائی جارہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں