جرمنی میں یہودیوں کی کونسل نے مطالبہ کر دیا ہے کہ جرمنی آنے والے نئے مسلم تارکین وطن کو سامیت دشمنی کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔ اس کونسل نے دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے نائب صدر ابراہم لہرر نے پروٹسٹنٹ پریس سروسز سے گفتگو میں کہا ہے کہ جرمنی آنے والے نئے مسلم تارکین وطن کو تعلیم فراہم کی جانا چاہیے تاکہ وہ سامیت دشمنی کی پہچان کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے تارکین وطن جب جرمنی میں زیادہ وقت گزار چکے ہوں گے تو ان کے لیے سامیت دشمنی زیادہ بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
ابراہم لہرر کے مطابق متعدد عرب مسلم ممالک میں سامیت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، ’’ان میں سے بہت سے لوگ اپنی ایسی حکومتوں سے متاثر ہیں، جو سامیت دشمنی کو اپنے ریاستی اصولوں کا حصہ قرار دیتی ہیں اور وہ یہودی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔‘‘
لہرر نے مزید کہا کہ جب یہ مسلمان جرمنی میں بنیادی ضروریات حاصل کر چکے ہوں گے تو ان کی ماضی کی سامیت مخالف تربیت نکل کر سامنے آ سکتی ہے اور وہ اپنے ایسے خیالات کا اظہار کھل کر کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ابراہم لہرر نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلم تارکین وطن افراد کو انضمام کے کورسز کراتے ہوئے، ان میں سامیت دشمنی کے بارے میں خصوصی اسباق شامل کیے جائیں۔
لہرر نے مزید کہا کہ ایسے کورسز میں ’جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور ہمارے معاشروں میں خواتین کے ساتھ اچھے سلوک کے بارے میں بھی خصوصی طور پر پڑھایا جائے‘۔
جرمنی میں عمومی طور پر پائے جانے والے سامیت مخالف جذبات اور بالخصوص دائیں بازو کی سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) کی عوامی مقبولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لہرر نے کہا کہ موجودہ حالات نے وائمار ری پبلک کے آخری دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔
یہ وہی دور تھا، جب سن انیس سو انتیس میں عظیم کساد بازاری میں جرمن علاقوں میں سامیت مخالف جذبات عام ہو گئے تھے اور نازی پارٹی اور اڈولف ہٹلر ابھر کر سامنے آئے تھے۔
اس تناظر میں لہرر نے کہا کہ وہ سامیت مخالف جذبات کے پھیلاؤ پر تحفظات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سامیت دشمن عناصر کے خلاف مؤثر اقدامات لینے اور ان کی مذمت کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے حال ہی میں کیمنٹس میں ہوئے واقعات کی مثال بھی دی، جہاں نیو نازی افراد نے مبینہ طور پر ممنوعہ نازی علامات کی کھلے عام نمائش کی اور مبینہ طور پر نازی سلیوٹ بھی کیے۔ ابراہم لہرر کے مطابق اے ایف ڈی ایسے پلیٹ فارمز قائم کر رہی ہے، جہاں سامیت دشمن عناصر پنپ سکتے ہیں اور اپنے خیالات اور جذبات کا کھلے عام اظہار کر سکتے ہیں۔
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔