سامیت دشمن گیت: آسٹرین فریڈم پارٹی کو نئے الزامات کا سامنا
مقبول ملک اے ایف پی
21 فروری 2018
آسٹریا میں سامیت دشمن گیتوں کے ایک نئے اسکینڈل کے باعث انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کو نئی مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں یہ دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ اس سیاسی پارٹی کی صفوں سے یہود دشمن اسکینڈل سامنے آیا ہے۔
اشتہار
جرمنی کی ہمسایہ اور ایلپس کی وفاقی جمہوریہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے بدھ اکیس فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کے سیاسی حلقوں میں سامیت دشمنی پر مبنی نازی گیتوں کی ایک نئی کتاب کا انکشاف ہوا ہے۔
ملکی جریدے ’فالٹر‘ کے مطابق یہ نئی کتاب ’برُونا زُوڈیشیا‘ (Bruna Sudetia) نامی اس طلبہ تنظیم کے سربراہ کی ملکیت ہے، جو آسٹرین فریڈم پارٹی یا ایف پی او کے بہت قریب ہے۔ اس طلبہ تنظیم کا سربراہ FPOe کا بھی سرگرم کارکن ہے، جس کا نام ہَیرِوگ گوئچوبر ہے۔
انتہائی دائیں بازو کا یہ نوجوان سیاسی عہدیدار آسٹریا کے وزیر ٹرانسپورٹ نوربرٹ ہوفر کا میڈیا سے متعلق مشاورتی اہلکار بھی ہے۔ جریدے ’فالٹر‘ کے مطابق اس نئی کتاب میں کئی ایسے گیت شامل ہیں، جن کے متعدد حصے سامیت دشمنی کے مظہر ہیں اور آسٹریا میں ابھی گزشتہ ہفتے بھی پہلی بار ایسا ہی ایک اسکینڈل سامنے آیا تھا۔
پچھلے ہفتے سامنے آنے والا ایسا پہلا اسکینڈل فریڈم پارٹی کے ایک اعلیٰ سیاسی امیدوار اُوڈو لینڈ باؤر کی ذات سے متعلق تھا، جس کے منظر پر آنے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے اس آسٹرین سیاستدان کو مستعفی ہونا پڑ گیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق اب فریڈم پارٹی سے فکری قربت رکھنے والی طلبہ تنظیم ’برُونا زُوڈیشیا‘ کے سربراہ کی ملکیت سیاسی گیتوں کی ایک کتاب میں متعدد ایسے گیت ملے ہیں، جن میں نہ صرف یہودیوں کے خلاف دشمنی کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ ان گیتوں میں تشدد کی حمایت اور نفرت پر مبنی ایسے تشدد پر ذہنی آمادگی کے اشارے بھی ملتے ہیں۔
ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ ہفت روزہ ’فالٹر‘ کے مطابق سامیت مخالف گیتوں کی اس کتاب کے مالک ہَیرِوگ گوئچوبر نہ صرف موجودہ وزیر ٹرانسپورٹ نوربرٹ ہوفر کے انتہائی قریبی معتمد ہیں بلکہ فریڈم پارٹی کے یہی رہنما ہوفر دراصل وہ آسٹرین سیاستدان بھی ہیں، جو 2016ء میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں ملکی صدر منتخب ہوتے ہوتے رہ گئے تھے۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
ان انکشافات کے بعد آسٹریا میں اپوزیشن کی گرین پارٹی اور سوشلسٹوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گوئچوبر، جو ایک ضلعی بلدیاتی انتظامیہ میں بھی فریڈم پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں، فوری طور پر مستعفی ہو جائیں۔
اس کے برعکس خود گوئچوبر نے اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں نہ تو سامیت دشمن گیتوں والی کسی کتاب کا کوئی علم ہے اور نہ ہی وہ ایسی کسی کتاب یا ڈائری کے متنازعہ مندرجات سے آگاہ ہیں۔
نیو نازی گروپ کی جانب سے قتل کے واقعات کی تحقیقات
تصویر: picture-alliance/dpa
قاتل برسوں حکام کی نظروں سے اوجھل رہے
’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ گروپ ’این ایس یو‘ کے ارکان کئی سالوں تک جرمنی میں لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں مبینہ طور پر اووے منڈلوس، اووے بوئنہارڈ اور بیاٹے چَیپے ملوث رہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ ترک نژاد، ایک یونانی نژاد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو غیر ملکیوں سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ 2011ء تک یہ افراد حکومت کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: privat/dapd
بینک ڈکیتی کا ناکام واقعہ
دائیں بازو کے دہشت گرد گروپ کا سراغ نومبر 2011ء پر لگا تھا۔ اس روز اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ نے ایک بینک لوٹا تھا۔ یہ ان کی پہلی ناکام کارروائی تھی۔ پولیس اس گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس پر یہ دونوں فرار ہوئے تھے۔ تفتیش کے مطابق ان دونوں نے گاڑی کو نذر آتش کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بیاٹے چَیپے نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا
چیپے، اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ مشرقی جرمن شہر سویکاؤ میں رہائش پذیر تھے۔ خود کشی کے واقعے کے بعد اس گھر میں دھماکہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ثبوت مٹانے کے لیے انہوں نے گھر کو آگ لگائی تھی۔ چار روز بعد چیپے نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مشتبہ خاتون دہشت گرد حراست میں ہے۔
تصویر: Getty Images
قتل کے واقعات سے پردہ اٹھا
سویکاؤ کے گھر کی راکھ سے حکام کو ایسا مواد حاصل ہوا، جس سے ’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ نامی اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ ایک 15 منٹ طویل ویڈیو تھی۔ اس میں 2000ء اور 2007ء کے درمیان ان تینوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے مقامات اور نشانہ بننے والے افراد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’این ایس یو‘ کا اعترافِ جرم
شوقیہ طور پر بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مشہور کارٹون کیریکٹر ’پنک پینتھر‘ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پیغام دے رہا ہے۔ اپنی گرفتاری سے قبل بیاٹے چیپے نے اس ویڈیو کی کاپیاں تقسیم بھی کی تھیں
تصویر: dapd
2011ء کا ناپسندید ترین لفظ ’ Dönermorde ‘
جرمنی میں ڈونر ایک مرغوب غذا ہے اور اس کا تعلق ترکی سے جوڑا جاتا ہے۔ 2011ء تک ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں کی جانب سے ان واقعات کو Dönermorde یا ڈونر قتل کہا جاتا رہا۔ حالانکہ تب تک ان واقعات کا پس منظر اور مقاصد واضح نہیں تھے۔ یہ افواہیں تھیں کہ شاید مقتولین کا تعلق کسی منشیات فروش گروہ سے ہو۔ حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد Dönermorde سال کا ناپسندیدہ ترین لفظ قرار دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی کیلوں سے بھرے بم کا حملہ
جون 2004ء میں کولون شہر میں ایک بم حملہ کیا گیا، جس میں آہنی کیلیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس واقعے میں 22 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی سال جون میں اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شلی نے کہا تھا، ’’سلامتی کے اداروں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی ایک کارروائی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا ہی ہاتھ تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
برلن میں مقتولین کے لیے دعائیہ تقریب
23 فروری 2012ء کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی تقریب میں نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی یاد تازہ کی گئی۔ اس تقریب میں ترکی سے تعلق رکھنے والے پھول فروش مرحوم انور سمسیک کی بیٹی سیمیہ سمسیک کی جذباتی تقریر نے سب کو غمزدہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نیو نازی گروپ کی جانب سے کی جانے والی قتل کی وارداتوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے معذرت کی تھی۔
تصویر: Bundesregierung/Kugler
متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار
چار نومبر 2011ء کو اس گروپ کے بے نقاب ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد جرمنی کے متعدد شہروں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر منقعد ہونے والی تقریبات میں ان واقعات کی مکمل تفتیش اور حقائق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تفتیش میں بد انتظامی
نیو نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کے معاملے میں حکام اور ادارے بری طرح ناکام رہے۔ اس حوالے سے اہم فائلیں تلف کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق آئینی تحفظ کے جرمن ادارے نے نيشنل سوشلسٹ يا نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا راز فاش ہونے کے بعد اُن کی فائلوں کو مبینہ طور پر تلف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے بعد اس محکمے کے سربراہ ہائنز فروم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مہمت کوباسک کی یادگار
ڈورٹمنڈ شہر کے میئر اولرش زیراؤ کے بقول ’ڈورٹمنڈ کا شمار جرمنی کے کثیر الثقافتی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی مخالفت بھی کھل کر کی جاتی ہے‘۔ یہ بات انہوں نے نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مہمت کوباسک کی یادگار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ یہ یادگار مہمت کی اس دکان کے بہت ہی قریب قائم کی گئی ہے، جہاں چار اپریل 2006ء کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مقدمے کی کارروائی اور صحافیوں کی مشکلات
اس مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا، جب عدالتی کمرے میں غیر ملکی صحافیوں کو کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہ کارروائی 17 اپریل کو شروع ہونا تھی تاہم عدالت نے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سماعت کے دوران کمرے میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں۔ ان معاملات کا تصفیہ ہو جانے کے بعد چھ مئی سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔