’سامیت مخالف حملہ‘، شامی مہاجر نے سزا کے خلاف اپیل کر دی
7 جولائی 2018
جرمن دارالحکومت برلن میں ایک اسرائیلی شہری کو تشدد کا نشانہ بنانے والا انیس سالہ شامی مہاجر اپنی سزا کے خلاف اپیل کرے گا۔ اس لڑکے پر جرم ثابت ہونے پر اسے چار ہفتے جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سات جولائی بروز ہفتہ بتایا ہے کہ برلن میں سترہ اپریل کو ایک اسرائیلی شہری کو تشدد کا نشانہ بنانے والا انیس سالہ شامی مہاجر اپنے خلاف سنائے جانے والی سزا کے خلاف اپیل کرے گا۔ اس شامی مہاجر نے مبینہ طور پر اپنی بیلٹ سے اس اسرائیلی پر حملہ کیا تھا۔ ساتھ ہی اس نے اسے ’یہودی‘ کہتے ہوئے مخاطب کیا تھا۔
اس حملے کو سامیت مخالف ایک کارروائی قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس اسرائیلی نے کِپا نامی وہ مخصوص ٹوپی پہنی ہوئی تھی، جو یہودی مذہب کے پیروکار پہنتے ہیں۔
جون کے مہینے میں جرمنی کی بچوں کی ایک عدالت نے اس شامی مہاجر کو مجرم قرار دیتے ہوئے اسے چار ہفتے کی سزائے قید سنائی تھی۔ عدالت کے مطابق اس پر جرم ثابت ہوا گیا تھا کہ اس نے اسرائیلی شہری کو جسمانی نقصان پہنچایا ہے۔
اگرچہ اس شامی مہاجر نے مقدمے کی کارروائی کے دوران ہی یہ سزا کاٹ لی تھی تاہم اس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی یہودی مخالف نہیں تھی۔ جرمن عدالتی حکام نے بتایا ہے کہ اس مجرم نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے، جس پر جلد ہی عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔
یہ شامی سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی آیا تھا۔ اس نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ اس نے اسرائیلی شہری کو بیلٹ کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا تھا تاہم اس کا مقصد سامیت مخالفت پر مبنی نہیں تھا۔
اس مجرم نے کہا ہے کہ اس کا حملہ مذہبی نفرت پر مبنی نہیں تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے حملہ اس لیے کیا تھا کیونکہ اس شخص نے اس کی بے عزتی کی تھی۔ اس مجرم کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب اس نے اسرائیلی شہری پر حملہ کیا تھا تو وہ نشے کی حالت میں تھا۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘