سام سنگ سربراہ کے وارثوں پر وراثت ٹیکس گیارہ ارب امریکی ڈالر
28 اپریل 2021
جنوبی کوریا کی بہت بڑی ٹیکنالوجی کمپنی سام سنگ کے آنجہانی سربراہ لی کُن ہی کے وارثوں کو تقریباﹰ گیارہ ارب امریکی ڈالر کے برابر وراثتی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ لی کُن ہی سالہا سال سے جنوبی کوریا کے امیر ترین شہری تھے۔
اشتہار
جنوبی کوریائی دارالحکومت سیول سے بدھ اٹھائیس اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی ٹیلیکوم کمپنیوں میں شمار ہونے والے ملکی ادارے سام سنگ کے سربراہ لی کُن ہی نے اپنے پیچھے اپنے پسماندگان کے لیے جو اثاثے چھوڑے ہیں، ان کی وجہ سے ان کے وارثوں کو حکومت کو 10.8 بلین امریکی ڈالر کے برابر پراپرٹی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
ورثے کی مالیت کے نصف سے زیادہ ٹیکس
جنوبی کوریائی کرنسی میں ٹیکس کی یہ رقم 12 ٹریلین وان سے زیادہ بنتی ہے۔ لی کُن ہی کے خاندان کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے لواحقین وراثتی ٹیکس کی مد میں حکومت کو جتنی رقم ادا کریں گے، وہ اس خاندان کے سربراہ کی طرف سے چھوڑے گئے اثاثوں کی مجموعی مالیت کے نصف سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ لی کے پسماندگان حکومت کو جتنا پراپرٹی ٹیکس ادا کریں گے، وہ جنوبی کوریا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی حکومت کو کسی خاندان کی طرف سے ادا کیے جانے والے سب سے زیادہ پراپرٹی ٹیکسوں میں سے ایک ہو گا۔
جنوبی کوریائی نیوز ایجنسی یون ہاپ نے لکھا ہے کہ لی کے وارث سیول حکومت کو جتنا وراثتی ٹیکس ادا کریں گے، وہ اس ملک کو 2020ء کے پورے سال میں اس مد میں حاصل ہونے والے ٹیکسوں کی مجموعی مالیت کا بھی تین سے چار گنا تک ہو گا۔
لی خاندان کے بیان کے مطابق وہ حکومت کو یہ ٹیکس مروجہ ملکی قانون کے مطابق اسی ماہ سے ادا کرنا شروع کر دے گا اور اس کی ادائیگی چھ قسطوں میں اگلے پانچ سال میں مکمل ہو گی۔
اشتہار
ایک ٹریلین وان کا عطیہ بھی
لی فیملی نے کہا ہے کہ وہ اپنے آنجہانی سربراہ کی طرف سے چھوڑی گئی املاک میں سے ایک ٹریلین (ایک ہزار بلین) وان چند خیراتی منصوبوں کے لیے بھی عطیہ کرے گی۔ یہ رقم جن اداروں کو عطیہ کی جائے گی، وہ وبائی امراض کی روک تھام کے علاوہ کم عمر بچوں میں سرطان کے مرض کے خلاف سرگرم ہیں۔
اس کے علاوہ لی کُن ہی کی ملکیت 23 ہزار سے زائد بہت قیمتی فن پاروں میں سے بھی بہت سے عطیہ کر دیے جائیں گے۔ ان فن پاروں میں مارک شاگال، پابلو پکاسو اور کلود مونے جیسے عظیم فنکاروں کی تخلیقات بھی شامل ہیں۔
لی کے قانونی وارث
لی کُن ہی نے اپنے قانونی وارثوں کے لیے جو املاک چھوڑی ہیں، ان میں سام سنگ الیکٹرانکس کے بےشمار حصص بھی شامل ہیں۔ آنجہانی لی 2009ء سے لے کر اپنے انتقال تک جنوبی کوریا کے امیر ترین شہری تھے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔
یون ہاپ کے مطابق اگر لی کُن ہی کی ملکیت غیر منقولہ جائیداد کو بھی شامل کیا جائے، تو سام سنگ الیکٹرانکس کے آنجہانی چیئرمین نے اپنے لواحقین کے لیے مجموعی طور پر 25 ٹریلین وان سے زائد کی املاک چھوڑیں۔
م م / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)
جدید ٹیکنالوجی مستقبل قریب میں ہماری دنیا کیسے بدل دے گی؟
جرمن شہر ہینوور میں جدید ٹیکنالوجی کا سالانہ میلہ سیبِٹ 2017 جاری ہے۔ رواں برس اس بڑی بین الاقوامی نمائش میں کیا نئی چیزیں متعارف کرائی جا رہیں ہیں اور وہ ہماری زندگیوں کو کیسے بدل کر رکھ دیں گی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Gentsch
گاڑی جو آپ کی عادات سمجھتی ہے
اس سال سیبِٹ میں مشہور کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے نامور ادارے آئی بی ایم ایک ساتھ دکھائی دیے۔ دونوں ادارے ایک ایسی اسمارٹ کار بنانے میں مصروف ہیں جو اپنے مالک کی عادات اور مزاج سے آگاہ ہو گی۔ آپ کی آج مصروفیات کیا ہیں؟ مستقبل کی کار نہ صرف ان باتوں سے واقف ہو گی بلکہ آپ کو مشورے بھی دی گی۔ یوں سمجھیے اسمارٹ کار اب آپ کی مشیر بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
گھر، شہر، ملک، دنیا - سب ایک دوسرے سے منسلک
سن 2020 تک پچاس ارب سے زائد ڈیوائسز انٹرنیٹ سے منسلک ہوں گی۔ چند برس بعد کی دنیا میں آپ کا موبائل اور کار ہی اسمارٹ نہیں ہوں گے بلکہ سارا گھر اور شہر بھی اسمارٹ ہوں گے۔ جیسے آج کی ’اسمارٹ واچ‘ ہماری نبض اور دل کی دھڑکن پر نظر رکھتی ہے آئندہ اسی طرح پورا گھر، بلکہ پورا شہر بھی آپ کی زندگیاں آسان بنانے میں مددگار ہوں گے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
جاپان: اس سال کا پارٹنر ملک
سیبِٹ 2017 نمائش میں جاپان کو پارٹنر ملک کے طور پر شریک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی اختراعات کے لیے جاپان ہر سال اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس برس سیبِٹ میں جاپانی ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کمپنیاں شریک ہیں اور نمائش کے افتتاح میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے خاص طور پر شرکت کی تھی۔ جاپانی روبوٹ ٹیکنالوجی اس مرتبہ نمایاں رہی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
دنیا بھر سے ہزاروں کمپنیوں کی شرکت، پاکستان ندارد
اس برس کی نمائش میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں شریک ہیں۔ موبائل ٹیکنالوجی سے لے کر دفاتر کی ڈیجیٹلائزیشن، صنعتوں اور صحت کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال تک مختلف النوع نئی ایجادات دکھائی جا رہی ہیں۔ بھارت سے قریب دو سو اور بنگلہ دیش سے بھی چھیالیس کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں تاہم پاکستان سے اس مرتبہ بھی کسی کمپنی نے شرکت نہیں کی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
تھری ڈی پرنٹر سے انسانی اعضا کی پرنٹنگ
مستقبل قریب میں جدید ٹیکنالوجی انسانی صحت میں کیسے مدد گار ثابت ہو گی، اس کی ایک بھرپور جھلک بھی اس نمائش میں دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی اعضا اور انسانی ٹیشوز کی پرنٹنگ۔ اس سال صحت اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر کئی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جن میں ماہرین صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر اب تک کی گئی تحقیق پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
حقیقی اور ورچوئل کا مٹتا ہوا فرق
مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ریئیلیٹی نیا موضوع نہیں۔ لیکن اس مرتبہ کی نمائش میں یوں لگا جیسے آئندہ کے چند برسوں میں حقیقی اور مرئی کا فرق بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ پہلے ’ورچوئل ریئیلیٹی‘ عینکوں کے ذریعے ایک غیر حقیقی دنیا کی سفر کیا جا سکتا تھا لیکن اب کی بار تو ایسی ایجادات دیکھی گئیں جن کے ذریعے صرف آنکھیں ہی نہیں، بلکہ پورا انسانی جسم ایک غیر حقیقی دنیا میں جا کر محسوسات کا احاطہ کر سکے گا۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ڈیجیٹل دنیا کتنی محفوظ ہے؟
جب انسان سے منسلک قریب ہر ڈیوائس انسانی موجودگی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہو تو پھر یہ خدشہ بھی ہمہ وقت رہتا ہے کہ ’بِگ بردر‘ بھی ہماری حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سال کے سیبِٹ میں ’ڈیجیٹل سکیورٹی‘ کا موضوع بھی نمایاں رہا۔ کئی کمپنیوں نے ایسے آلات کی نمائش کی جو ہمارے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن نے بھی اس بارے میں ویڈیو کانفرنس کال کے ذریعے خطاب کیا۔