پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں نے 64 سالہ سانائے تاکائچی کو جاپان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب کر لیا ہے۔ ان کی تقرری کی حتمی منظوری آج شہنشاہ ناروہیتو سے ملاقات کے بعد متوقع ہے۔
تاکائچی پچھلے پانچ برسوں میں جاپان کی پانچویں وزیرِاعظم ہیںتصویر: Kim Kyung-Hoon/REUTERS
اشتہار
لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما سانائے تاکائچی کو پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں نے اس وقت منتخب کیا جب انہوں نے رواں ماہ کے آغاز میں ایوانِ زیریں میں غیر متوقع طور پر پہلے ہی مرحلے میں اکثریت حاصل کر لی۔
اب ان کی پہلی بڑی آزمائش 27 اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ جاپان کی صورت میں سامنے آئے گی۔
تاکائچی پچھلے پانچ برسوں میں جاپان کی پانچویں وزیرِاعظم ہیں۔ ان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) جو پچھلے کئی دہائیوں سے مسلسل حکومت میں ہے، حالیہ عرصے میں اپنی عوامی حمایت کھو رہی ہے۔
چھ اکتوبر کو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے فوراً بعد، ان کو پہلا بڑا دھچکا اس وقت لگا جب کومیٹو پارٹی نے ان کے قدامت پسند نظریات اور ان کی پارٹی کے مالیاتی اسکینڈل پر اتحاد ختم کر دیا۔
اس کے بعد تاکائچی نے دائیں بازو کی جاپان انوویشن پارٹی (جے آئی پی) کے ساتھ اتحاد کیا، جس کا معاہدہ پیر کے روز طے پایا۔
جے آئی پی خوراک پر سیلز ٹیکس کو صفر کرنے، سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ اور تنظیمی عطیات پر پابندی لگانے، اور ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد کم کرنا پر زور دے رہی ہے ۔
اگرچہ تاکائچی کی تقرری تاریخی واقعہ ہے، لیکن ان کے سیاسی نظریات جاپان کی کئی خواتین کے لیے باعثِ تشویش ہیںتصویر: Yuichi Yamazaki/AFP/AP Photo/dpa/picture alliance
خواتین نئی حکومت کا اہم حصہ ہوں گی
تاکائچی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت تشکیل دیں گی جس میں "نارڈک ممالک" کی طرز پر خواتین کی نمائندگی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جاپان کی معیشت کو مضبوط بنائیں گی اور ملک کو آئندہ نسلوں کے لیے قابلِ فخر بنائیں گی۔
ایک سابق ہیوی میٹل ڈرمر ہونے کے ناطے، انہوں نے خواتین کی صحت سے متعلق مسائل پر شعور اجاگر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جاپان ایک مردانہ غلبے والا معاشرہ ہے، اور ورلڈ اکنامک فورم کی 2025 کی رپورٹ میں صنفی مساوات کے لحاظ سے 148 ممالک میں سے 118ویں نمبر پر ہے، جہاں ایوانِ زیریں میں صرف 15 فیصد ارکان خواتین ہیں۔
تاکائچی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جاپان کی معیشت کو مضبوط بنائیں گی اور ملک کو آئندہ نسلوں کے لیے قابلِ فخر بنائیں گیتصویر: Kaname Yoneyama/AP Photo/picture alliance
قدامت پسند نظریات پر خدشات
اگرچہ تاکائچی کی تقرری تاریخی واقعہ ہے، لیکن ان کے سیاسی نظریات جاپان کی کئی خواتین کے لیے باعثِ تشویش ہیں۔ وہ 19ویں صدی کے اس قانون میں ترمیم کی مخالف ہیں جس کے تحت شادی شدہ جوڑوں کو ایک ہی خاندانی نام رکھنا لازمی ہے، حالانکہ جاپان میں اس قانون کی مخالفت عام ہے۔
اسی طرح، وہ شاہی خاندان میں صرف مردانہ جانشینی کی حامی ہیں اور ہم جنس شادی کی بھی مخالف ہیں، جو کئی ووٹرز کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تاکائچی نے کئی بار سابق برطانوی وزیرِاعظم مارگریٹ تھیچر کو اپنی مشعل راہ قرار دیا ہے، اگرچہ وہ مالیاتی وسعت اور آسان مانیٹری پالیسیوں کی حامی ہیں، جو تھیچر کی پالیسیوں کے برعکس ہیں۔
ایل ڈی پی چونکہ دونوں ایوانوں میں اقلیت میں ہے، اس لیے نئی حکومت کو قانون سازی کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی۔
جاپانی شہنشاہ اور ’دیوتا‘ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری
جاپانی شہنشاہ آکی ہیٹو تیس سال تک تخت پر براجمان رہنے کے بعد اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ جاپان کے نئے شہنشاہ ان کے بیٹے ناروہیٹو ہوں گے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
شاہی خاندان کی روایات میں تبدیلی
جاپانی شاہی خاندان میں آنے والی اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ آکی ہیٹو جاپان میں گزشتہ دو سو سال میں تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ مشرق بعید کی اس بادشاہت میں صدیوں پرانی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی شہنشاہ جب ایک بار تخت سنبھال لے، تو وہ عمر بھر یہ ذمے داریاں انجام دیتا رہتا ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
تخت سے دستبرداری کی تقریبات
پچاسی سالہ آکی ہیٹو تین عشرے قبل ’چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ جاپان میں تخت پر بیٹھے تھے۔ کل بدھ یکم مئی کو مذہبی اور روایتی تقریبات کے اختتام پر شہنشاہ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، جس کی تکمیل صدیوں پرانی روایات پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
سورج کی دیوی سے دعا
ان کی شہنشاہ کے طور پر تخت سے دستبرداری کی شاہی تقریبات آج منگل 30 اپریل کو شروع ہوئیں، جو دو دن جاری رہیں گی۔ آج دن کے آغاز پر یہ تقریبات آکی ہیٹو کی طرف سے شِنٹو عقیدے کے مطابق سورج کی دیوی کی ایک عبادت گاہ میں دعائیہ تقریب کے ساتھ شروع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Jiji Press
دیوتاؤں کو اطلاع دینے کی مذہبی تقریب
منگل تیس اپریل کی صبح جب شہنشاہ آکی ہیٹو روایتی جاپانی لباس پہنے ہوئے ’کاشی کودو کورو‘ کی شِنٹو عبادت گاہ گئے، تو اس کا مقصد وہاں عبادت کرتے ہوئے دیوتاؤں کو ان کی تخت سے دستبرداری کی اطلاع دینا تھا۔ یہ شِنٹو عبادت گاہ ’آماتےراسُو‘ نامی شِنٹو دیوی کے نام پر قائم کی گئی تھی، جنہیں جاپان میں شاہی خاندان کے ’براہ راست اجداد‘ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Issei Kato
تخت سے دستبرداری کے روایتی تقاضے
آج منگل کے روز پہلے شہنشاہ آکی ہیٹو شاہی محل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے، جس میں اعلیٰ ترین حکومتی نمائندوں کے علاوہ شاہی خاندان کے مرد ارکان بھی حصہ لیں گے۔ شاہی قانونی روایات کے مطابق آکی ہیٹو آج رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے تک شہنشاہ رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بدھ کو ان کے بیٹے اور ولی عہد ناروہیٹو نئے شہنشاہ کے طور پر تخت پر بیٹھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وراثت کی منتقلی
اس کے بعد ایک اور علیحدہ شاہی تقریب بھی منعقد ہو گی، جس میں نئے شہنشاہ کے طور پر ناروہیٹو کو شاہی تلوار، ہیرے جواہرات، شاہی خاندان کی مہر اور جملہ شاہی اختیارات منتقل کر دیے جائیں گے۔ جاپان میں یہ تقریب شاہی وراثت کی منتقلی کی تقریب کہلاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
آکی ہیٹو کی شخصیت
جاپان دنیا کی قدیم ترین بادشاہت ہے، جہاں آکی ہیٹو سے پہلے ان کے والد ہیروہیٹو شہنشاہ تھے۔ ہیروہیٹو دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جاپانی تخت کے مالک تھے اور ان کا جاپانی عوام ایک دیوتا جیسا احترام کرتے تھے۔ اس لیے کہ جاپان میں بادشاہ کو انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Imperial Household Agency of Japan
آکی ہیٹو کا دور حکمرانی
آکی ہیٹو اپنے والد ہیروہیٹو کے انتقال کے بعد 1989ء میں تخت پر بیٹھے تھے اور 2016ء میں انہوں نے یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا کہ وہ تخت سے دستبردار ہونا چاہتے تھے۔ انہیں ماضی میں سرطان کا مرض بھی لاحق رہا ہے اور ان کے دل کا آپریشن بھی ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Hoshiko
ایک عام جاپانی خاتون سے شادی
جاپانی شاہی خاندان میں آکی ہیٹو کی شخصیت کی خاص بات یہ رہی ہے کہ انہوں نے اس گھرانے کے کردار کو جدید بنانے کی کوشش کی۔ وہ ایسے پہلے شہنشاہ تھے، جنہوں نے ایک عام جاپانی خاتون سے شادی کی تھی۔ یہی خاتون بعد میں ’ملکہ میچی کو‘ بنیں۔
تصویر: Reuters/Kyodo
ایک عوام دوست شہنشاہ
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جاپانی عوام کے ساتھ اپنے رابطوں اور شاہی منصب پر فائز ہونے کے باوجود عام شہریوں کے لیے اپنی جذباتی قربت کا کئی بار مظاہرہ کیا، جسے بہت سراہا گیا تھا۔ اس انتہائی انسان دوست شاہی رویے کی بڑی مثالیں 2011ء میں آنے والے زلزلے اور سونامی طوفان اور اس سے قبل 1995ء میں کوبے شہر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے موقع پر بھی دیکھی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ولی عہد ناروہیٹو کون ہیں؟
آئندہ شہنشاہ ناروہیٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح جاپانی شاہی خاندان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری رکھیں گے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ماساکو اوواڈا سے شادی کر رکھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Kawada
ناروہیٹو اور بیٹی کی پیدائش
ناروہیٹو کی عمر اس وقت 59 برس ہے اور وہ ماضی میں ملکی شاہی زندگی کے چند پہلوؤں پر تنقید کرنے سے بھی نہیں گھبرائے تھے۔ ناروہیٹو کی ماساکو اوواڈا سے شادی 1993ء میں ہوئی تھی اور اس سے قبل وہ ایک کامیاب سفارت کار تھیں۔ ماساکو اوواڈا پر جاپانی عوام کی توقعات کے حوالے سے ایک بڑا دباؤ یہ بھی تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جنم دے کر ملک کو مستقبل کے لیے تخت کا ایک نیا وارث مہیا کریں، مگر ایسا ہو نہیں سکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Kyodo
تخت نشینی کے حقدار صرف مرد
ولی عہد ناروہیٹو اور شہزادی اوواڈا کی صرف ایک ہی اولاد ہے اور وہ شہزادی آئیکو ہیں، جو 2001ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن شہزادی آئیکو مستقبل میں تخت پر ملکہ کے طور پر براجمان نہیں ہو سکیں گی، کیونکہ جاپان میں تخت کا وارث صرف کوئی بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
تصویر: AP
مستقبل کے ممکنہ جانشین
ناروہیٹو کے تخت نشین ہونے کے بعد ان کے ممکنہ جانشین ان کے بھائی شہزادہ آکی شینو ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن آکی شینو کا اپنا بھی صرف ایک ہی بیٹا ہے، جس کی عمر اس وقت صرف 12 برس ہے۔ اس طرح ناروہیٹو کے بادشاہ بننے کے بعد دنیا کی اس قدیم ترین بادشاہت کے لیے آکی شینو اور ان کے اس وقت کم عمر بیٹے کے علاوہ ملکی تخت کا کوئی مرد وارث موجود ہی نہیں ہے۔