سانحہء بوسنیا کی اٹھارویں برسی
11 جولائی 2013اس قتل عام کے دوران میں بوسنی سرب فوجیوں نے آٹھ ہزار افراد کو ہلاک کیا تھا۔بوسنی سرب مظالم کا شکار ہونے والے ان افراد کی باقیات تدفین کے ساتھ ساتھ قتل عام کے اس افسوسناک سانحے کے 18 برس مکمل ہونے پر سریبرینیتسا کے قریب ’پوٹوچاری‘ کے مقام پر ایک دعائیہ تقریب بھی منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے ملک بھر سے ہزاروں افراد اس قصبے کا رخ کیا۔ یہاں جن 409 لوگوں کی تدفین کی جارہی ہے ان کی باقیات سربوں کی جانب سے بنائی گئی اجتماعی قبروں سے ملی ہیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعد یورپ کی تاریخ کے اس سب سے بڑے قتل عام میں بوسنیائی سرب فوجیوں نے آٹھ ہزار افراد کا قتل عام کیا تھا۔ سرب مظالم کا شکار ہونے والے ان افراد کی تدفین کے ساتھ ساتھ قتل عام کے اس افسوسناک سانحے کے 18 برس مکمل ہونے پر سریبرینیتسا کے قریب ’پوٹوچاری‘ کے مقام پر ایک دعائیہ تقریب بھی منعقد کی گئی۔
اس تقریب میں شرکت کے لیے ملک بھر سے ہزاروں افراد اس قصبے کا رخ کیا۔ یہاں جن 409 لوگوں کی تدفین کی جارہی ہے ان کی باقیات سربوں کی جانب سے بنائی گئی اجتماعی قبروں سے ملی ہیں۔بوسنیا میں قریب دو دہائی قبل سربوں کی جانب سے بنائی گئی اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کیا جاتا ہے اور پھر ان کی تدفین عمل میں لائی جاتی ہے۔ وہاں یہ عمل ایک طویل عرصے سے مسلسل جاری ہے۔
آج ہی اقوام متحدہ کی ’یوگوسلاو‘ جنگی جرائم کی ایک عدالت ’بوسنیائی سرب جنگ‘ کے زمانے کے لیڈر ’رودوان کراڈچ‘ Radovan Karadzic کے خلاف مسلمانوں کی نسل کشی کا مقدمہ قائم کئے جانے کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل کی سماعت بھی کرے گی۔ ’ رودوان کراڈچ‘ پر الزام کے ہے وہ سریبرینیتسا میں مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ کار تھا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے بوسنیائی حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ آج ہونے والی اس تقریب میں اس قتل عام کے دوران مارے جانے والے سب سے نو عمر بچے کی تد فین ہوگی۔ اس حوالے سے ایک بوسنیائی اہلکار نے بتایا، ’’ہم اس سال موہک فیملی کے بچے کی بھی تدفین کریں گے، جس کی لاش ایک اجتماعی قبر سے دریافت ہوئی تھی‘‘۔ یہ بچی اپنی پیدائش کے فوری بعد مر گئی تھی اس کی قبر اس کے والد ہجر الدین کی قبر کے ساتھ بنائی جائے گی۔
حکام کے مطابق آج جن 409 متاثرین کو ان کی آخری آرام گاہ میں پہنچایا جائے گا ان میں سے 44 ایسے ہیں جن کی عمریں چودہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں۔ تقریب شروع ہونے سے قبل ہی پوٹوچاری میں چھ ہزار افراد جمع ہوچکے تھے۔ یہ لوگ اس 80 کلومیٹر طویل راستے کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں، جس راستے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے والے مسلمانوں مردوں اور نوجوان لڑکوں کو قتل کردیا گیا تھا۔
آخری رسومات سے قبل ہلاک ہونے والے ان افراد کی باقیات کو تابوتوں میں ڈال کر سبز کپڑے سے ڈھانپ کر ایک بڑے ہال میں رکھ دیا گیا تھا۔ قبرستان میں تازہ قبروں کی کھدائی مکمل ہوچکی ہے جہاں ان افراد کو دفن کیا جائے گا۔ سفید سنگ مرمر سے تیار کی جانے والی ان قبروں کے سرہانے سبز کتبے ایستادہ ہیں۔ اس دوران وہاں بہت سے جذباتی مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔پانچ ہزار چھ سے سو زائد ہلاک شد گان کی باقیات کو پہلے ہی پوٹوچاری میں سپرد خاک کیا جاچکا ہے۔