1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سانحہء کراچی: ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات

14 ستمبر 2012

کراچی کے ایک کارخانے میں آتشزدگی کا بھیانک واقعہ دو سو سے زائد مزدور گھرانوں کو ہمیشہ کے لیے غمگین کر گیا ہے۔ اس واقعے نے مشکلات میں گھری معیشت پر بھی کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

تصویر: Getty Images

یہ آگ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی ایک ایسی گارمنٹس فیکٹری میں لگی تھی، جہاں ملک بھر کے سینکڑوں دیگر کارخانوں کی طرح انتہائی ناگفتہ حالات میں پیداواری عمل جاری تھا۔ گارمنٹس کی صنعت پاکستان کی برآمدات اور یوں مجموعی ملکی معیشت میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ عین ممکن ہے کہ پاکستانی گارمنٹس کے غیر ملکی خریدار اب بین الاقوامی تنظیموں کے خوف کے باعث پاکستانی فیکٹری مالکان سے سختی برتیں۔ کارخانے داروں کا موقف ہے کہ وہ پہلے ہی نامساعد حالات میں بین الاقوامی منڈی میں بنگلہ دیش، بھارت اور چین جیسے سخت حریفوں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

کراچی میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق ملک کے اس اقتصادی مرکز میں سات صنعتی علاقے ہیں، جہاں دس ہزار سے زائد کارخانے فعال ہیں۔ ان کے علاوہ پچاس ہزار سے زائد چھوٹے صنعتی یونٹس ایسے بھی ہیں جو رہائشی علاقوں کی اطراف میں قائم ہیں۔ کراچی کے سابق اعلیٰ انتظامی عہدیدار فہیم زمان خان کے بقول بلدیہ ٹاؤن میں جو فیکٹری دو سو سے زائد مزدوروں سمیت خاکستر ہوئی ہیں، وہ شہر میں قائم بیشتر کارخانوں کے جیسے ہی تھی۔ ’’ کراچی میں ایسی ایک بھی فیکٹری نہیں جو سہولتوں اور بناوٹ کے اعتبار سے تباہ شدہ فیکٹری جیسی نہ ہو، ہر ایک بشمول حکمرانوں کی طرف سے ان جیسی فیکٹریوں کو دیکھا جا رہا ہے مگر وہ اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہیں۔‘‘

تصویر: AP

پولیس ذرائع کے مطابق جلنے والی فیکٹری علی انٹرپرائزز مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے لیے گارمنٹس مصنوعات برآمد کرتی تھی تاہم فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا یہ کون کون سے مغربی برانڈز اس کارخانے کے خریدار ہیں۔

مزدور تنظیم نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سے وابستہ ناصر منصورکے بقول اس کارخانے میں حفاظتی انتظامات یکسر نظر انداز کیے گئے تھے۔ ’’علی انٹرپرائزز میں پانچ سو سے زائد مزدوروں کے لیے ایمرجنسی کی صورت میں محض ایک خارجی راستہ تھا، تمام کھڑکیوں کو آہنی جالیوں سے بند رکھا گیا تھا اور دیگر دروازوں اور راستوں میں تیار شدہ مال کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ فہیم زمان خان 18 ملین نفوس والے کراچی شہر میں ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کی مجموعی صلاحیت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ ’’ اتنے بڑے شہر میں آگ بجھانے کے لیے 35 فعال گاڑیاں ہیں جبکہ شہر میں ہزاروں خطرناک عمارتیں موجود ہیں، جو کسی بھی وقت ایک بھیانک حادثے کا شکار ہوسکتی ہیں۔‘‘

کراچی کے کارخانے میں جان گنوانے والے بیشتر مزدور پانچ سے دس ہزار روپے ماہانہ کی اجرت پر مامور تھے۔ بچ جانے والوں میں سے ایک محمد خان، جو تیسری منزل سے کود کر اپنا بازو تڑا چکا ہے، کے بقول پر خطر حالات میں مزدوری کرنا زندگی کی ایک تلخ اور دائمی حقیقت ہے۔ ’’ میں اپنے والدین، بیوی اور تین بچوں کا واحد کفیل ہوں، جیسے ہی میرا بازوں ٹھیک ہوگا میں کسی دوسری فیکٹری میں کام کی تلاش شروع کر دوں گا۔‘‘

(sks/ ab (AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں