سانس کی بیماری کی وبا، طبی سہولیات میں اضافے کا چینی فیصلہ
26 نومبر 2023
سانس کی بیماری کی وجہ بننے والے ایک نئے وائرس نے چینی عوام کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ بیماری خصوصاً بچوں میں بہتت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ حکام نے طبی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
چین میں طبی امدادی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آج اتوار کے روز چینی حکام کی جانب سے اس بات کا اعلان ملک میں سانس کی بڑھتی ہوئی ایک بیماری سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کی جانب سے نمونیا کے کیسز میں زیادہ تر بچوں میں اضافے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ملک میں آںے والی یہ نئی بیماری نے انہیں ملک میں کووڈ انیس کی تکلیف دہ دور کی یاد دلا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے چینی کی بپلک ڈزیز سرویلنس سسٹم "پرومیڈ" کی جانب سے یہ کہا گیا کہ کچھ ہسپتالوں میں بیمار بچوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔
نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ترجمان می فینگ نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "متعلقہ کلینکس اور علاج کے سہولیات کی تعداد بڑھانے، سروس کے اوقات کو بڑھانے اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔"
می کے مطابق سانس کی شدید بیماریوں میں تیزی سے اضافہ متعدد قسم کے پیتھوجینز کی بیک وقت گردش سے منسوب ہے۔ ان میں سب سے نمایاں انفلوئنزا ہے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی بعض صنعتیں
چینی شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا نے کئی صنعتی اداروں کو متاثر کیا ہے۔ بعض اداروں کے لیے یہ وبا منفعت کا باعث بنی ہے اور کئی ایک کو مسائل کا سامنا ہے۔ بعض اس وائرس کو عالمی طلب میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: VLADIMIR MARKOV via REUTERS
جرمن چانسلر ووہان میں
سن 2019 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ووہان میں ویباسٹو فیکٹری کے بڑے پلانٹ کے دورہ کیا تھا۔ اب یہ کارخانہ بند ہے۔ جرمن ادارے زیمینز کے مطابق اس وبا کے دوران ایکس رے مشینوں کی طلب زیادہ ہونے کا امکان کم ہے اور فوری طور پر کم مدتی کاروباری فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
صفائی ستھرائی اور صفائی ستھرائی
کورونا وائرس کی وبا سے کیمیکل فیکٹریوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ڈس انفیکشن سیال مادے کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جراثیم کش پلانٹس کو زیادہ سپلائی کے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ ادارے زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کی سپلائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
دوکانیں اور ریسٹورانٹس
ووہان میں کے ایف سی اور پیزا ہٹ کے دروازے گاہکوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ سویڈن کے کپڑوں کے اسٹور ایچ اینڈ ایم کی چین بھر میں پینتالیس شاخیں بند کر دی گئی ہیں۔ جینر بنانے لیوائی کے نصف اسٹورز بند کیے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے بڑے اداروں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ آن لائن بزنس سے ان کو کسی مالی نقصان کا سامنا نہں ہے۔
تصویر: picture-alliancedpa/imaginechina/Y. Xuan
ایڈیڈاس اور نائیکی
کھیلوں کا سامان بنانے والے امریکی ادارے نائیکی کی طرح اُس کے جرمن حریف ایڈیڈاس نے بھی کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اپنے بیشتر اسٹور بند کر دیے ہیں۔ مختلف دوسرے اسٹورز بھی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے ان اداروں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت خیال کیا جا رہا ہے۔ اشتہاری کاروباری سرگرمیاں بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Imaginechina
کارساز اداروں کی پریشانی
اس وائرس کی وبا سے چین میں غیرملکی کار ساز اداروں کی پروڈکشن کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مختلف کار ساز ادارے اپنی فیکٹریوں کو اگلے ہفتے کھولنے کا سوچ رہے ہیں۔ جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی چین میں تینتیس فیکٹریاں ہیں اور ادارہ انہیں پیر دس فروری کو کھولنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گاڑیوں کی پروڈکشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
تصویر: Imago Images/Xinhua
کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
مرسیڈیز بنانے والے ادارے ڈائملر کا کہنا ہے کہ وہ اگلے پیر سے اپنی فیکٹری کھول دیں گے۔ فیکٹری کو یہ بھی فکر لاحق ہے کہ کارخانے کے ورکرز گھروں سے نکل بھی سکیں گے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ کوئی بھی انسانی جان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ کئی گاڑیوں کو فروخت کرنے والے اداروں کے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ہونڈا کی احتیاط
جاپانی کار ساز ادارے ہونڈا کے فاضل پرزے بنانے والی تین فیکٹریاں ووہان شہر میں ہیں۔ یہ چینی قمری سال کے آغاز سے بند ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ تیرہ فروری تک بند رہیں گے۔ ایک ترجمان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ ہونڈا کی پروڈکشن شروع ہو سکے گی کیونکہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اضافی سپلائی روانہ کرنے کا امکان نہیں
کورونا وائرس سے بین الاقوامی سپلائی میں رکاوٹوں کا پیدا ہونا یقینی خیال کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال بہت گھمبیر ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی مثال کار انڈسٹری ہے۔ جنوبی کوریائی کار ساز ادارے ہنڈائی نے تو اپنے ملک میں پروڈکشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ چین سے اضافی پرزوں کی سپلائی ممکن نہیں رہی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صورت حال ساری دنیا میں پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Reuters/Aly Song
چینی لوگ بھی محتاط ہو کر دوری اختیار کر رہے ہیں
کورونا وائرس کے اثرات جرمن فیسٹیول پر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں شریک ہونے والے چینی شہری وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں اور اس باعث شرکت سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں۔ فرینکفرٹ میں صارفین کے سامان کے بین الاقوامی فیسٹیول ایمبینٹے میں کم چینی افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ لفتھانزا سمیت کئی دوسری فضائی کمپنیوں نے وائرس کی وجہ سے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
تصویر: Dagmara Jakubczak
جرمنی میں وائرس سے بچاؤ کی تیاری
فرینکفرٹ میں شروع ہونے والے فیسٹیول میں شرکا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک قرنطینہ یا کوارنٹائن تیار کی گئی ہے تا کہ کسی بھی مہمان میں اس کی موجودگی کی فوری تشخیص کی جا سکے۔ ووہان سے جرمنی کے لیے کوئی براہ راست پرواز نہیں ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ کے لیے زیادہ تر پروازیں بیجنگ اور ہانگ کانگ سے اڑان بھرتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Schreiber
10 تصاویر1 | 10
اس بیماری کی علامات میں بخار، کھانسی کے بغیر پھیپھڑوں کی سوزش، اور پھیپھڑوں پر گانٹھیں نمودار ہونا ہے۔ تاہم اب تک اس بیماری کے باعث کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔
یاد رہے کہ کورونا وبا کے دوران سخت ترین لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد یہ چین کا پہلا موسم سرما ہے
ریاستی کونسل نے ایک بیان میں کہا، "تمام علاقوں کو متعدی بیماریوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی درست اور بروقت ہونی چاہیے۔"
اس ہفتے کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے چین سے کیسز میں اضافے کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تاہم ڈبلیو ایچ او کو چین میں حالیہ بیماری میں کوئی نیا یا غیر معمولی پیتھوجینز نہیں ملا۔
کورونا وبا کے آغاز میں رپورٹنگ میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے بیجنگ کو اب تک شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ سن 2019 میں چینی شہر ووہان میں یہ وبا پہلی بار پھوٹی تھی۔ تاہم اس کے بعد چین کو اس بیماری کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے نافذ کی گئی سخت ترین پالیسیوں کے لیے سراہا بھی جاتا رہا ہے۔