رومانیہ کی پولیس کے مطابق بچائے گئے مہاجرین میں بچے اورخواتین بھی شامل ہیں۔ موسمِ سرما کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جب رومانیہ کے کوسٹ گارڈز نے رومانیہ کا رخ کرنے والے مہاجرین کو کشتی میں پکڑا ہے۔
اشتہار
تُرکی سے روانہ ہونے والی مہاجرین کی کشتی کو رومانیہ کے ساحل سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر دیکھا گیا تھا۔ بعد ازاں کوسٹ گارڈز کی جانب سے بحیرہ اسود کی تُند و تیز لہروں سے ٹکراتی کشتی کو بندرگاہ ’کونستانتا‘ پر لایا گیا۔ رومانیہ کے کوسٹ گارڈز کی ترجمان خاتون لونیال پسات نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کشتی پر بچے بھی سوار تھے لیکن ابھی مہاجرین کی حتمی تعداد اور قومیت کے بارے میں کچھ بھی بتانا قبل از وقت ہوگا۔
مغربی یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کے لیے پچھبلے چند دنوں ميں بحیرہ اسود ایک متبادل راستہ بن کر سامنے آیا ہے۔ گزشتہ قريب ایک ماہ سے کم عرصے میں 570 سے زائد عراقی، شامی، افغانی، ایرانی، اور پاکستانی باشندے رومانیہ پہنچنے ہیں۔
متعلقہ ماہرین کی جانب سے بحیرہ اسود کو بحیرہ روم کے مقابلے میں سمندری طوفانوں کے باعث زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ دو ماہ قبل بحیرہ اسود میں پندرہ افراد ڈوب گئے تھے جبکہ قريب چالیس افراد کو مچھیروں نے بچا کر تُرکی کے ساحلوں تک پہنچا ديا تھا۔
چونکہ رومانیہ یورپی یونین کا رکن تو ہے ليکن بغير ويزے کے سفر والے شینگین زون کا حصہ نہیں لہٰذا اسے اس صورتحال کا سامنا نہيں، جس کا ديگر يورپی ممالک کو ہے۔ يورپ کو ان دنوں مہاجرين کے بحران کا سامنا ہے اور پچھلے دو سے تين برسوں ميں شمالی افريقہ، مشرق وسطی اور ايشيا کے چند ملکوں سے لاکھوں پناہ گزين يہاں پہنچ چکے ہيں۔ يہ مہاجرين غربت اور خانہ جنگی سے بچنے کے لیے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ تاہم یورپی یونین کے تُرکی اور لیبیا کے ساتھ متنازعہ معاہدوں کے بعد مہاجرین کی روايی راستوں سے يورپ ميں آمد کم ہوئی ہے تاہم نئے راستے وجود ميں آتے جا رہے ہيں۔ امکان ظاہر کيا جا رہا ہے کہ رومانيہ کے راستے سے يورپ آمد اسی سلسلے کی ايک کڑی ہے۔
سمندروں میں پناہ گزینوں کی تلاش اور سلامتی کی کوششیں
غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہے۔ ان کا جہاز ’’ ڈگنٹی ون‘‘ بھی اب تک کئی ہزار افراد کو ڈوبنے سے بچا چکا ہے۔ ان کارروائیوں کی تصاویر
تصویر: DW/K. Zurutuza
ہر لمحہ تیار
فینیکس اور آرگوس کی طرح ڈگنٹی ون بھی ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ایم ایس ایف‘ کے اس بحری بیڑے کا کا حصہ ہے، جو 2015ء کے دوران بحیرہ روم میں گشت کر رہا ہے۔ پچاس میٹر لمبا یہ جہاز پانچ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ طریقے سے خشکی پر پہنچا چکا ہے۔ یہ تینوں جہاز اب تک سترہ ہزار افراد کو لہروں کی نذر ہونے بچا چکے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سمندر میں در بہ در
ان چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم پار کرنے کی قمیت پانچ سو یورو تک ہوتی ہے۔ بظاہر نا توا دکھائی دینے والی ان کشتیوں پر اسمگلرز کی بڑی بڑی کشیتوں سے زیادہ بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ سیکنڈ آفیسر ڈیوڈ برادوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’ایسی کشتیاں ڈوبتی نہیں لیکن بڑی کشتیاں اکثر غرق ہو جاتی ہیں اور مسافر ان میں پھنس جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
ہم کامیاب ہو گئے
’ڈگنٹی ون‘ پر سوار زیادہ تر مہاجرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لیبیا میں انسانی اسمگلروں نے بتایا تھا کہ انہیں ایک جہاز محفوظ طریقے سے اٹلی لے جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس سال اب تک تین لاکھ سے زائد افراد سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کا یہ پُر خطر سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین اور بچے پہلے
مہاجرین کی کشتیوں میں سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی کشتی پر سوار افراد کا دس سے پندرہ فیصد تک ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق اکثر کشتیوں پر تو حاملہ خواتین بھی سوار ہوتی ہیں یا نوزائیدہ بچے ان کی گود میں ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو خصوصی توجہ اور طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرشے پر افریقہ
بلقان کے ذریعے یورپ پہنچنے والوں کی نسبت لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ لیبیا سب صحارہ ممالک کے اُن مہاجرین کا مسکن بن چکا ہے، جو یورپ آنا چاہتے ہیں۔ اس دوران بہت سے افریقیوں کے ساتھ بد سلوکی اور انہیں قتل کر دینے تک کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
غلاموں کی تجارت
سینیگال سے تعلق رکھنے والے امین جابی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’لیبیا میں ایک حراستی مرکز میں بند کرنے کے بعد وہاں موجود محافظوں نے مجھے ایک موبائل فون دیا اور کہا کہ میں اپنے اہل خانہ سے بات کروں۔ اور اگر انہوں نے تاوان ادا نہ کیا تو مجھے مار دیا جائے گا۔ مجھے تو چھوڑ دیا گیا لیکن جو لوگ رقم ادا نہیں کر پاتے انہیں غلام بنا کر تعمیراتی کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنے خواب کا اختتام
متعدد خواتین نے بتایا کہ انہیں لیبیا میں قائم بدنام زمانہ حراستی مراکز میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا عملہ نفسیاتی اور طبی سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ جہاز پر ہی ایڈز کا ٹیسٹ بھی کرتا ہے۔ اس تنظیم کی لورا پاسکیرو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان میں سے زیادہ تر خواتین صدمے کا شکار ہوتی ہیں اور جو بات کرنے کے قابل ہوتی ہیں وہ صرف بھیانک واقعات ہی بیان کرتی ہیں‘‘۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بے خوابی
نائجیریا سے تعلق رکھنے والی ایولین نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی:’’مجھے طرابلس کے پاس پانچ ملسح افراد نے پکڑا اور وہ مجھے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ میرے ایام ماہواری تھے۔ یہ دیکھ کر وہ غصے میں آ گئےاور مجھے اتنا مارا کے میں بے ہوش ہو گئی۔ میرے شوہر نے یہ سارے اخراجات ادا کیے ہیں اور یہاں اٹلی میں اس کا انتظار کر رہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
’ڈگنٹی ون‘ سے اٹلی منتقلی
’ ڈگنٹی ون‘ گنجائش کے حوالے سے چھوٹا ہے اور اس کی رفتار بھی قدرے کم ہے۔ اس وجہ سے یہ زیادہ تر لیبیا کے ساحلوں کے قریب قائم کیے جانے والے’’ریسکیو زون‘‘ میں ہی موجود رہتا ہے۔ اس پر سوار پناہ گزینوں کو بڑی کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جو زیادہ تر اطالوی جزیرے سیسلی یا ریجیو کالابریا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہت زیادہ توقعات
ساحل پر پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اسے نظر انداز کرتی ہے۔ انہیں بعد میں شمالی اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جہاں ایک ماہ تک ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بہت سے کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ آبائی ممالک میں موجود اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجنا چاہتے ہیں۔ اٹلی میں روزگار تلاش کرنا بہت مشکل ہے اور اس وجہ سے بہت سوں کو تو زندہ رہنے کے لیے بھیک تک مانگنا پڑتی ہے۔