سترہویں صدی کے بیش قیمت فن پارے موٹر وے پر کوڑے کے ڈبے میں
19 جون 2021
جرمن میں ایک نیشنل موٹر وے کے سروس ایریا میں کوڑے کے ایک ڈبے سے تقریباﹰ ساڑھے تین سو سال پرانی دو بیش قیمت اطالوی اور ڈچ پینٹنگز ملیں۔ پولیس نے عام شہریوں سے ان فن پاروں کے مالک کی تلاش میں مدد کی درخواست کی ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ انیس جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ صدیوں پرانے قیمتی فن پارے وسطی جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر اوہرن باخ کے نواح میں اے سیون نامی آٹو بان پر ایک سروس اور ریسٹنگ ایریا میں کوڑے کے ایک بڑے ڈبے سے ملے۔
انڈے ایسٹرکی خوشی سے بھی بڑھ کر ہیں۔ تمام قسم کے آرٹ میں انڈوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پینٹنگ سے لے کر فرنیچر ڈیزائن تک۔ انڈے عمارتوں کی سجاوٹ کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
ہمٹی ڈمپٹی کی مشہور نظم تقریباً سب ہی نے سنی ہے۔ مگر بیچارے ہمٹی ڈمپٹی کو کبھی کسی نے انڈا نہیں سمجھا۔برطانوی مصنف لیوس کیرول کی سن1871 میں اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ ہمٹی ڈمپٹی ایک انڈے کی مانند ہے، مگر اسے کوئی انڈہ نہیں سمجھتا۔
سونے، مینا کاری، قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں سے جڑے انڈے۔ ماضی میں رنگ برنگے انڈے واقعی ایک شاندار تحفہ ہوا کرتے تھے۔ پچاس سے زائد مشہور قیمتی انڈے روسی سونار پیٹرکارل فیبر گے کے شاہکار ہیں۔
تصویر: Alex_Mac - Fotolia.com
جیف کونز کا کریک انڈا
یہ شاندار، چمکدار سٹینلیس سٹیل سے بنا ہوا انڈا جیف کونز کا فن تعمیر ہے۔ یہ کریک انڈے کا مجسمہ مختلف رنگوں میں موجود پانچ انڈوں میں سے ایک ہے۔ یہ مجسمہ 1994سے 2006 کے درمیان بنائے گئے تھے اور "اسے پیدائش کی علامت" سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Arrizabalaga
انڈے کا اموجی
ایک ہی انڈے کی مختلف اشکال : ایک فرائنگ پین کے اندر تلا ہوا انڈا ایک مشہور اموجی ہے۔ سن نوے کی دہائی میں یہ انڈا جاپانی موبائل میں متعارف کرایا گیا تھ۔ لفظ اموجی کو آکسفورڈ ڈکشنری میں سن 2015 میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: Google
نیدر لینڈ کے رنگ ساز کی جانب سے آخری فیصلہ
بوش 15 ویں اور ابتدائی 16 ویں صدی کے ایک ڈچ یعنی ولندیزی مصور تھے۔ ان کی مصوری رات کے بھیانک خواب کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصویر میں انڈے کے اندر سے بدصورت دیو سا نکلتا دکھائی دیتا ہے، جسے ایگ مونسٹر کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/akg-images/Nimatallah
سلواڈور ڈالی کی طرف سے پیش کیا گیا 'نارکوس کا میٹامورفوس'
حقیقت پسند آرٹسٹ کی سن 1937 میں بنائی گئی یہ آئل پینٹنگ یونانی داستان یا کوئی دیو مالائی کہانی کا حال بیان کرتی ہے۔ یہ پینٹنگ ایک خوبصورت آدمی کے بارے میں ہے۔ انسانی ہاتھ میں انڈا دکھایا گیا ہے اور پانی میں اس کا خوبصورت عکس بھی اپنی مثال آپ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk/DB Fundació Gala
ڈالی تھیٹر میوزیم
ہسپانوی شہر فیگیرس کے تھیٹر میوزیم کی دیواروں پر بڑے سائز کے سفید انڈوں کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ یہ میوزیم ڈالی کی پینٹنگز، ڈرائنگ، مجسموں، نقش گری ، ہولوگرام، اسٹیریواسکوپ اور تصاویر سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Arco Images/B. Bönsch
انڈے سے بنی کرسی
سن 1958 میں آرن جیکبسن نے کوپن ہیگن میں انڈے سے بنی ہوئی ایک کرسی بنائی، جسے ایک ’ایس اے ایس‘ رائل ہوٹل کے لابی رکھا گیا۔ ڈینش معمار کی جانب سے بنائی گئی یہ کرسی جسے اندرونی آرائش کے لیے استعمال کیا گیا ہے نہایت سادہ ہے۔ را / ع ا (Dagmar Breitenbach)
پولیس کے مطابق ان فن پاروں کی وہاں موجودگی کا اتفاقاﹰ پتہ ایک ایسے 64 سالہ شہری نے چلایا، جو کوڑے کے اس دھاتی کنٹینر میں کچھ پھینکنا چاہتا تھا کہ اچانک اس کی نظر ان پینٹنگز پر پڑ گئی۔
اس شہری نے یہ پینٹنگز وہاں سے نکال کر کولون شہر میں پولیس کے حوالے کر دی تھیں۔
دونوں فن پاروں کے اصل ہونے کی تصدیق
پولیس نے بتایا کہ یہ پینٹنگز کوڑے کے کنٹینر سے گزشتہ ماہ ملی تھیں اور کولون پولیس کے حوالے کیے جانے کے بعد تفتیشی حکام فنون لطیفہ کے ماہرین کی مدد سے یہ طے کرنے میں مصروف تھے کہ آیا یہ واقعی صدیوں پرانی اصلی پینٹنگز ہیں۔
اس بارے میں میڈیا کو اب آگاہ اس لیے کیا گیا کہ فائن آرٹس اور فن مصوری کے کئی ماہرین نے تصدیق کر دی ہے کہ یہ دونوں فن پارے سترہویں صدی میں بنائی گئی اصلی اور بہت قیمتی آئل پینٹنگز ہیں۔
پاکستان میں قیدیوں کے بارے میں عام طور پر نہ تو کچھ زیادہ مثبت رائے پائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ تصور کہ جیلیں سزا یافتہ افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنا سکتی ہیں۔ کراچی میں جاری ایک نمائش نے اس تصور کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آرٹ گیلری میں نمائش
کراچی کی ایک نجی آرٹ گیلری ’آرٹ سٹی‘ میں کراچی سینٹرل جیل کے قیدیوں کے تیار کردہ فن پاروں کی نمائش کی جا رہی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آرٹ پِیس
اس نمائش کو آرٹ پِیس Artpeace کا عنوان دیا گیا ہے۔ 21 فروری سے شروع ہونے والی یہ نمائش 27 فروری تک جاری رہے گی۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
13 قیدیوں کے 112 فن پارے
آرٹ پِیس نمائش میں سینٹرل جیل کراچی کے 13 قیدیوں کے بنائے گئے 112 فن پاروں کی نمائش کی جا رہی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
جیل میں فائن آرٹس اسکول
کراچی سینٹرل جیل میں قائم فائن آرٹس اسکول میں تربیت حاصل کرنے والے ان قیدیوں نے مصوری کے مختلف اسلوب کے ذریعے اپنے فن کو اجاگر کیا ہے اور آرٹ کو اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آئل اور واٹر کلر کے علاوہ چارکول کا استعمال
اس نمائش میں رکھے جانے والے ان فن پاروں میں آئل پینٹنگز کے علاوہ واٹر کلر اور چارکول کا خوبصورت استعمال بھی نظر آتا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
فنکاروں کی پزیرائی
نمائش کو ملنے والی پزایرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پانچ دنوں میں ہی زیادہ تر فن پارے فروخت ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
خیالات کا عکس
رسیوں کو توڑتے ہاتھ، ادھ کھلے دروازے سے باہر جھانکتا بچہ یا کسی گاؤں کے پس منظر میں بنائی گئی بعض تصاویر میں سلاخوں کے پیچھے قید ان مصوروں کے خیالات کا عکس واضع طور سے جھلکتا نظر آتا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
تجریدی آرٹ
ان پابند سلاسل فنکاروں نے کیلی گرافی، خوبصورت لینڈ اسکیپنگ اور تجریدی آرٹ کے ذریعے اپنے احساسات اور اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
2008ء سے سینٹرل جیل کے قیدیوں کی تربیت
سکندر جوگی سن 2008 سے سینٹرل جیل کے قیدیوں کو مصوری کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
زندگی کی جانب مثبت انداز
جوگی کے مطابق مختلف جرائم کی پاداش میں سزا کاٹنے والے ان مصور قیدیوں کو اس ہنر نے زندگی کی جانب مثبت انداز میں بڑھنے کا عزم دیا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
پہلے گھنٹے میں 30 فن پارے فروخت
نمائش میں رکھی گئی تصاویر کی قیمت سات ہزار سے نو ہزار کے درمیان رکھی گئی ہے۔ نمائش کے آغاز کے پہلے ہی گھنٹے میں ان فنکاروں کی 30 پینٹنگز فروخت ہوئیں۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آمدنی جیل کے فائن آرٹس اسکول کے لیے
آرٹ پِیس نمائش کے دوران فن پاروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سینٹرل جیل کراچی میں قائم فائن آرٹس اسکول کو دی جائے گی، جہاں ان جیسے مزید قیدیوں کو بھی مصوری کی تربیت دی جائے گی۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
قیدیوں کا مثبت تاثر
آرٹ گیلری کے مہتمم کے مطابق اس نمائش کا مقصد ان مصور قیدیوں کو پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دینا اور بہتر طرز زندگی کی جانب مائل ہونے میں مدد دینا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
13 تصاویر1 | 13
ڈچ پینٹنگ ریمبرانت کے شاگرد کی بنائی ہوئی
ان دونوں فریم شدہ پینٹنگز میں سے ایک ماضی کے معروف اطالوی مصور پیئترو بیلوٹی کا بنایا ہوا سیلف پورٹریٹ ہے، جس میں وہ مسکرا رہے ہیں اور جس پر سال 1665ء لکھا ہوا ہے۔
اس آئل پینٹنگ کا نام 'مسکراتے ہوئے، سیلف پورٹریٹ‘ ہے۔ پیئترو بیلوٹی 1627ء میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا انتقال 1700ء میں ہوا تھا۔
پولیس نے عوام سے اس بارے میں معلومات کی صورت میں مدد کی درخواست کی ہے کہ ان قدیمی فن پاروں کا ممکنہ مالک یا مالکان کون ہو سکتے ہیں اور ان بیش قیمت پینٹنگز کو آٹو بان کے سروس ایریا میں کوڑے کے کنٹینر میں کس نے پھینکا؟
م م / ع ح (اے پی، ڈی پی اے)
فریبِ نظر: جانور یا انسان، آپ کا امتحان
’باڈی پینٹنگ‘ یا ’باڈی آرٹ‘ میں پینٹ کے رنگ براہِ راست انسانی جلد پر لگائے جاتے ہیں تاہم یہ رنگ مستقل نہیں ہوتے اور چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ چند دنوں میں اتر جاتے ہیں۔
تصویر: Johannes Stötter
کیا اس تصویر میں آپ کو ایک گرگٹ نظرآ رہا ہے؟
یوہانیس شٹوئٹر کا تعلق اٹلی سے ہے۔ وہ ایک فنکار ہے، جس کا کینوس انسانی جسم ہیں۔ وہ انسانی جسموں کو کچھ اس انداز سے پینٹ کرتا ہے کہ انسان کسی اور ہی منظر میں تحلیل ہو جاتا ہے یا کسی جانور کا روپ دھار لیتا ہے۔ گرگٹ کی اس تصویر میں دراصل دو انسانی جسم چُھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: Johannes Stötter
اور یہ طوطا ...
... بھی غیر حقیقی ہے۔ یوہانیس شٹوئٹر کو یہ فریبِ نظر تخلیق کرنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔ یوہانیس شٹوئٹر نے اپنے ماڈلز کے بدن پر اس طرح سے رنگ بکھیرے ہیں کہ وہ انسان نہیں بلکہ بظاہر مینڈک، طوطے اور گرگٹ نظر آتے ہیں۔ اُس کا تشکیل کردہ فریبِ نظر تقریباً مکمل ہے۔ انسان غائب ہو جاتے ہیں اور آنکھ صرف ایک جانور کی شبیہ دیکھتی ہے۔
تصویر: Johannes Stötter
مینڈک بنانے کے عمل ...
... میں پانچ گھنٹے صرف ہوئے جبکہ انسانی کینوس بھی پانچ ہی صرف ہوئے۔ اس تصویر میں پانچ انسانی جسم چھُپے ہوئے ہیں۔ کیا آپ سب کو شناخت کر پائے؟
تصویر: Johannes Stötter
یہ ہیں یوہانیس شٹوئٹر ...
... جو دو اکتوبر 2014ء کی اس تصویر میں اپنے ماڈل جان لیونارڈو کے جسم پر پینٹ کر رہے ہیں۔ امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں کیموفلاج پینٹنگ کا یہ مظاہرہ امریکا میں باڈی پینٹنگ کی چیمپئن شپ کا ایک حصہ تھا۔ شٹوئٹر فریبِ نظر تخلیق کرنے میں کتنا کامیاب رہے، یہ دیکھیں اگلی تصویر میں ...
تصویر: picture-alliance/dpa/E.S. Lesser
اٹلانٹا کا منظر انسانی بدن پر
یوہانیس شٹوئٹر نے اپنے ماڈل جان لیونارڈو کے جسم پر کچھ اس طرح سے رنگ لگائے ہیں کہ اُس کا بدن امریکی شہر اٹلانٹا کے مرکزی حصے کی بلند و بالا عمارتوں میں تحلیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.S. Lesser
ایک اور ماڈل ...
... امریکا کی طرح آج کل دنیا کے مختلف ملکوں میں باڈی پینٹگ کے باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ یہ تصویر یورپی ملک آسٹریا میں 2013ء میں منعقد ہونے والے ایک ورلڈ باڈی پینٹنگ فیسٹیول کی ہے، جس میں دنیا کے چالیس ملکوں سے گئے ہوئے فنکاروں نے شرکت کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
باڈی پینٹنگ ایک مقصد کے لیے
2013ء کی اس تصویر میں ورلڈ اینیمل ڈے کے موقع پر جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے کارکنوں نے اپنے چہرے پینٹ کر رکھے ہیں۔ اس طرح وہ ’بُل فائٹنگ‘ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
تصویر: RAUL ARBOLEDA/AFP/Getty Images
رنگ، رونق، ہنگامہ
یہ تصویر بھی جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں منعقد ہونے والے اُس مقابلے کی ہے، جس میں پوری دنیا سے گئے ہوئے ایسے فنکار شریک ہوئے، جو انسانی بدن پر پینٹ کرتے ہوئے باڈی آرٹ کے نت نئے نمونے تخلیق کرتےہیں۔
’باڈی آرٹ‘ میں نہ صرف جسم پر پینٹ کے رنگ لگائے جاتے ہیں بلکہ اضافی چیزیں چسپاں کرتے ہوئے جسم کی پوری ہیئت ہی بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ انسان قدیم زمانے سے جسم پر نقش و نگار بناتا چلا آرہا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے نقش و نگار مقامی ثقافت کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں۔