سب سے بڑا اور براہ راست خطرہ روس، نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی
29 جون 2022
مغربی دفاعی اتحاد کے نئے نظریہ سلامتی کے مطابق نیٹو کو سب سے زیادہ اور براہ راست خطرہ روس سے ہے جبکہ چین کی توسیع پسندانہ اور جابرانہ پالیسیاں بھی نیٹو کے مفادات، سلامتی اور اقدار کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔
اشتہار
میڈرڈ میں نیٹو سمٹ کے دوران مغربی دفاعی اتحاد کے رکن ممالک نے روس کے یوکرین پر حملے کے تناظر میں اپنا نیا نظریہ سلامتی جاری کر دیا۔ اس سمٹ کے دوران نیٹو کی جانب سے مشرقی یورپ میں اس اتحاد کے فوجی دستوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کیا گیا۔
نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی
اس دستاویز کے مطابق نیٹو اب روس کو اپنے ایک اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر نہیں دیکھتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹو روس کے ساتھ کوئی تنازعہ بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی نیٹو روس کے لیے کوئی خطرہ ہے۔
دوسری جانب چین سے متعلق کہا گیا ہے، ''چین وسیع پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور عسکری سرگرمیوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔‘‘ پہلی مرتبہ نیٹو کی جانب سے چین سے متعلق موقف کو باقاعدہ پالیسی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم نیٹو کی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔
نیٹو کے رکن ممالک نے اس نئی پالیسی پر میڈرڈ سمٹ کے دوران دستخط کیے۔ نیٹو اسی پالیسی کے تحت آئندہ برسوں کے لیے اپنے اہداف اور سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرے گا۔ اس اتحاد نے آخری مرتبہ اپنی ایسی پالیسی 2010ء میں ترتیب دی تھی۔
نیٹو رہنماؤں نے روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے تناظر میں مشرقی یورپ میں اس اتحاد کے مزید فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کیا۔ یہ اتحاد اپنی ریپڈ ری ایکشن فورسز کی تعداد کو چالیس ہزار سے بڑھا کر تین لاکھ تک کر دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ نیٹو کی یہ فورسز عام طور پر اس اتحاد کی مرکزی کمان کو رپورٹ کرتی ہیں اور انہیں کسی بھی رکن ملک میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا سکیورٹی بحران
نیٹو سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ میڈرڈ میں نیٹو اتحادیوں کی سمٹ ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے، جب اس اتحاد کے رکن ممالک کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے سنگین سکیورٹی بحران کا سامنا ہے۔
یوکرین پر روسی فوجی حملے نے یورپ میں شدید نوعیت کے سکیورٹی خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نیٹو کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں مشرقی یورپ میں ہتھیار اور فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں۔ اس اتحاد کے رکن ممالک نے یوکرین کی مدد کے لیے اربوں ڈالر کی عسکری اور سویلین امداد وہاں پہنچائی ہے۔ اسٹولٹن برگ نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نیٹو اتنے بڑے پیمانے پر دفاعی اعتبار سے تبدیلیاں کر رہا ہے۔
اشتہار
یوکرینی صدر کا نیٹو ممالک سے مطالبہ
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے نیٹو رکن ممالک کے رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو نے اس جنگ زدہ ملک کا مکمل اور کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ زیلنسکی نے روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کیا۔
صدر زیلنسکی نے کہا کہ نیٹو کی کھلے دروازے کی پالیسی کییف کے ٹرام اسٹیشنوں کے پرانے دروازوں جیسے نہیں ہونا چاہیے جو ہر وقت کھلے رہتے ہیں لیکن جب کوئی ان کے قریب جائے تو وہ بند ہو جاتے ہیں۔ زیلنسکی نے نیٹو ممالک سے مزید جدید ہتھیار کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔ زیلنسکی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو نیٹو روس کو شکست دینے کے لیے یوکرین کی مدد کرے یا پھر روس اور نیٹو کی جنگ کے خطرے کا سامنا کرے۔
لیکن نیٹو کی طرف سے مالی امداد اب ایک حساس موضوع بھی ہے۔ نیٹو کے صرف نو رکن ممالک ایسے ہیں، جو اس اتحاد کی جانب سے طے کردہ، اپنے بجٹ کا دو فیصد حصہ دفاع پر خرچ کرنے کی شرط پورا کرتے ہیں۔ جرمنی نے حال ہی میں اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔