لیونی فان ہیسے کو سالانہ مقابلہٴ حسن میں مس جرمنی منتخب کیا گیا ہے۔ رواں برس مس جرمنی کے انتخاب کے لیے مقرر جیوری میں کوئی مرد شامل نہیں تھا۔
اشتہار
رواں برس کے لیے مس جرمنی کے مقابلہٴ حسن کا تاج نمیبیا میں پیدا ہونے والی لیونی فان ہیسے کے سر پر سجایا گیا ہے۔ ان کو یہ اس مقابلے میں خاص طور پر لارا رونارسن اور اناستاسیا مالیس کے سخت چیلنج کا سامنا تھا۔ اس مقابلے میں کُل پندرہ نوجوان جرمن حسینائیں آخری مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
مقابلہ حسن جیتنے والی لیونی فان ہیسے پینتیس برس کی ہیں اور مس جرمنی بننے والی رواں برس کی تمام لڑکیوں میں سب سے بڑی عمر کی حامل ہیں۔ انہوں نے مقابلہٴ حسن میں اپنے مستقبل کا مقصد 'مستند خواتین کو بااختیار بنانا‘ رکھا ہوا تھا۔
مقابلہٴ حسن جیتنے کے بعد لیونی فان ہیسے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور کی عورتیں روایتی حسن کے معیارات سے انحراف کی متمنی ہیں اور ان شکنجوں سے نکلنے کی جد و جہد کر رہی ہیں۔ مس جرمنی نے ایک عورت کے لیے اپنے معیار حسن میں اندرونی قوت، مضبوط کردار اور استقامت کو شامل کیا۔
لیونی فان ہیسے کو مس جرمنی منتخب کرنے کے اعلان کے بعد گزشتہ برس کی حسینہٴ جرمنی نادین بیرنائیس نے ان کے سر پر مس جرمنی کا تاج سجایا۔ نئی مس جرمنی کی تصویر سب سے پہلے معروف جریدے 'جوائے‘ کے سرورق پر شائع کی جائے گی۔ انہیں انعام میں کئی دیگر انعامات کے ساتھ فوکس واگن کی کار 'گولف‘ بھی ملے گی۔
اس مقابلے میں لیونی فان ہیسے کے بعد دوسرا مقام باویریا سے تعلق رکھنے والی حسینہ لارا رونارسون کو حاصل ہوا۔ وہ نائب مس جرمنی قرارا پائیں۔ اس خصوصی تقریب میں کئی نامی گرامی جرمن اور یورپی خواتین شریک تھیں۔
یہ امر اہم ہے کہ رواں برس پہلی مرتبہ شادی شدہ خواتین کو بھی اس مقابلہٴ حسن میں شریک ہونے کا موقع دیا گیا۔ اس طرح اب مائیں بھی مس جرمنی کا تاج حاصل کرنے کی دوڑ شامل ہونے کا پروانہ رکھتی ہیں۔ اس مقابلے میں بکنی کاسٹیوم کو شامل نہیں کیا گیا۔ رواں برس کے مقابلے کے لیے عمر کی حد میں دس برس کا اضافہ بھی کیا گیا۔ سن 2020 کے مس جرمنی کے مقابلے میں شریک خواتین کی عمریں اٹھارہ برس سے انتالیس برس کے درمیان تھیں۔
زلکے ژوہان (ع ح ⁄ ا ب ا)
حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lemel
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘