سب سے زیادہ ماحولياتی خطرات کے شکار ننانوے شہرایشیا میں
16 مئی 2021
ماحولیاتی خطرات اور نقصانات سے متعلق ایک تازہ ترین تجزیاتی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت دنیا میں جن سو شہروں کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں، ان میں سے ننانوے براعظم ایشیا میں ہیں۔
اشتہار
ماحولياتی خطرات کے سب سے زیادہ شکار 100 شہروں کے بارے میں سامنے آنے والی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 400 شہروں اور لگ بھگ ڈيڑھ ارب کی انسانی آبادی کو شديد گرمی، انتہائی آلودہ ماحول، قدرتی آفات اور ديگر ماحولياتی نقصانات کا سامنا ہے۔ ایسے خطرات سے دوچار شہروں ميں سے 80 فيصد کا تعلق بھارت اور چين سے ہے۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ کے خطوں کے کئی ممالک اور شہر بھی شدید خطرات کی زد ميں ہيں۔
دنیا کے 400 بڑے شہروں کی کُل آبادی 1.5 بلین بنتی ہے۔ اس رپوٹ کے مطابق ان ڈیڑھ بلین انسانوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات 'انتہائی زیادہ‘ ہیں۔ ان خطرات کی وجوہات بہت سے مختلف عوامل کا مجموعہ ہیں۔ مثال کے طور پر پانی کی فراہمی میں مسلسل کمی، شدید گرمی کی موسمیاتی لہریں، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے عوامل مل کر ان شہروں میں آباد انسانوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔گندم کی کاشت کاری کریں یا ماحول کو دھند سے بچائیں؟ پاکستانی کسان مشکل میں
جکارتہ جیسے 'ڈوبتے ہوئے‘ بڑے شہروں کی صورتحال سب سے خطرناک ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں، جکارتہ جیسے ان شہروں کو آئندہ مزید مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسےشہروں کی فہرست میں انڈونیشیا کے دو بڑے شہر سورابایا اور بنڈونگ بھی کافی اوپر ہیں۔ سورابایا چوتھے اور بنڈونگ آٹھویں نمبر پر ہے۔
پاکسستان: اس جنوبی ایشیائی ممالک کے دو سب سے بڑے شہر کراچی اور لاہور بھی اس فہرست میں بہت پیچھے نہیں ہیں۔ کراچی 12 ویں جبکہ لاہور 15 ویں نمبر پر ہے۔
بھارت: بھارت جنوبی ایشیا کا وہ ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ خطرات سے دوچار 20 شہروں میں سے 13 شہر واقع ہیں۔ اس وجہ سے بھارت کا مستقبل انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کاروباری خطرات کے تجزیہ کار ویرسک میپل کروفٹ کے مطابق 576 شہروں کے عالمی انڈکس میں نئی دہلی دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد بھارت ہی کا شہر چنئی تیسرے نمبر پر، آگرہ چھٹے، کانپور دسویں، جے پور 22 ویں اور لکھنؤ 24 ویں نمبر پر ہے۔ ممبئی اپنی ساڑھے بارہ ملین کی آبادی کے ساتھ اس فہرست میں 27 ویں نمبر پر ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال 70 لاکھ سے زیادہ قبل از وقت انسانی اموات کا سبب فضائی آلودگی بنتی ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ اموات صرف بھارت میں ہوتی ہیں۔ کم از کم ایک ملین نفوس پر مشتمل آبادی والے دنیا کے ایسے 20 شہر جہاں کی آب و ہوا بد ترین اور آلودہ ترین ہے، بھارت میں واقع ہیں۔ ان میں سے بھی بدترین حالت بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ہے۔
ماحولیاتی خطرات اور نقصانات سے متعلق اس نئی تجزیاتی رپورٹ سے یہ پتا بھی چلا ہے کہ دنیا بھر کے شہروں میں رہائش پذیر انسانوں میں سے 336 ملین انسان صرف دو ممالک بھارت اور چین کے شہروں میں رہتے ہیں۔
عالمی سطح پر انسانی صحت اور زندگی کے لیے خطرات کا سبب بننے والی فضائی آلودگی کے خوردبینی اثرات بتاتے ہیں کہ PM2.5 ذرات کے فضا میں پھیلنے کی بنیادی وجہ کوئلے اور دوسری اقسام کے معدنی ایندھن کو جلا کر اسے استعمال کرنا بن رہا ہے۔
پلاسٹک کی ماحولیاتی آلودگی کا بھیانک چہرہ
خوبصورت سمندری ساحل اب پلاسٹک کی بوتلوں اور تھیلوں کے ساتھ ساتھ اِن سے مرے پرندوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ساحل دوسرے کچرے سے بھی اٹی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک سے انسانی محبت کی قیمت بھی اب انسانوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
پلاسٹک کی عمر
پلاسٹک ایک ہلکا پھلکا اور تادیر رہنے والا مادہ ہے۔ سن 1950 میں ابتدائی پروڈکشن کے بعد سے اسے آٹھ بلین میٹرک ٹن سے زائد یہ پیدا کیا جا چکا ہے۔ یہ مسلسل ری سائیکل بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا مادی انحطاط ممکن نہیں اور اس کے نابود نہ ہونے نے انسانی زندگی میں انتہائی زیادہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر سے ری سائیکل کے لیے پلاسٹک ضرور اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن بہت سارا سمندر تک پھر بھی پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
پلاسٹک کے دریا
دنیا بھر میں نوے فیصد پلاسٹک کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک دریا پہنچاتے ہیں۔ ان میں دنیا کے دس بڑے دریا شامل ہیں۔ ان کے نام ہیں، یانگژی، زرد، سندھ، ہائی، نیل، گنگا، پرل، آمو، نائیجر اور میکانگ۔ یہ دریا انتہائی گنجان شہروں کے قریب سے گزرتے ہیں اور اپنے ساتھ کچرا بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/G. B. Dantes
پرندوں نے بھی پلاسٹک کا استعمال شروع کر دیا
کئی پرندوں کے لیے دریاؤں، سمندروں اور جنگلوں میں پائے جانے والے کاٹھ کباڑ میں پلاسٹک کو اپنے لیے مفید بھی جانا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہاگن جھیل میں یہ پرندہ پلاسٹک کو اپنے گھونسلے میں استعمال کیے ہوئے ہے۔ ریسرچر کے مطابق انسانوں کی طرح پرندوں کے لیے بھی پلاسٹک انتہائی غیرمفید ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ritzau Scanpix
پلاسٹک استعمال کرنے کے خطرناک نتائج
پلاسٹک کے مکمل طور پر نابود ہونے کا عرصہ بہت طویل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی موجودگی ماحولیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد پلاسٹک کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو انجام کار ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے سمندری حیات و نباتات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Balance
پلاسٹک خوراک کا حصہ بن چکا ہے
جانور پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق یورپ، روس، آئس لینڈ اور دیگر ممالک کے کئی جزائر پر چونتیس فیصد سمندری حیات کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر چوہتر فیصد پلاسٹک قابل ہضم نہیں ہوتا۔ اس سے انسانی بدن میں بھی جانے سے اندرونی اجزاء کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پلاسٹک نے انسانوں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی عظیم الجثہ مخلوق کو بھی ہلاک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ تھائی نہر میں ایک ایسی وہیل مچھلی پائی گئی تھی، جس کو سانس لینے میں شدید دشواری تھی کیونکہ اُس کے گلے میں پلاسٹک کا بیگ پھنسا ہوا تھا۔ علاج کے دوران وہیل کے اندر سے پانچ پلاسٹک کے تھیلے نکلے تھے۔ یہ وہیل بعد میں جانبر نہیں ہو سکی تھی۔ اس وہیل کا معدہ اسی فیصد پلاسٹک کچرے سے بھرا ہوا تھا۔
تصویر: Reuters
پلاسٹک کی دیکھی اور ان دیکھی صورتیں
انسانی زندگی میں پلاسٹک کی مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں بعض ہمارے سامنے ہیں اور بعض مختلف اشیا میں ملفوف ہوتی ہیں۔ سمندر میں انتہائی باریک پلاسٹک کے ذرات تیرتے پھرتے ہیں اور یہ بھی سمندری حیات کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ذرات نے مچھلیوں اور سمندری پرندوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NOAA Pacific Islands Fisheries Science Center
پلاسٹک سے نجات کی صورت دکھائی نہیں دے رہی
انسانوں کو پلاسٹک کے استعمال سے کیونکر نجات مل سکتی ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک کی طویل ری سائیکلنگ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین نے اس حوالے سے مثبت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک پر پابندی کا امکان ہے۔