دنیا بھر کے مسلمانوں کی شاید خواہش ضرور ہو، مگر رمضان مختلف مقامات پر مختلف دنوں میں شروع ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں اور کیا کوئی مسلم کلینڈر ممکن ہے؟
اشتہار
اسلامی مہینوں اور تہواروں کا تعلق قمری تاریخ سے ہوتا ہے اور مسلم ممالک میں ہر جانب کچھ فرق کے ساتھ کیلنڈر جاری کیا جاتا ہے، جس میں مسلسل تبدیلی بھی آتی رہتی ہے۔ قمری مہینہ یا تو 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا مگر اس کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ چاند دکھائی دیا یا نہیں۔
زیادہ تر مسلم ممالک میں باقاعدہ انتظامی ادارے موجود ہیں، جن کا کام چاند دیکھنے کا ہے تاکہ نئی قمری مہینے کا اعلان کیا جا سکے۔ بعض مسلم ممالک مثلاﹰ افغانستان عید اور رمضان اور دیگر قمری مہینوں سے نتھی تہوار یا مہینے سعودی عرب کے ساتھ مناتے ہیں، جب کہ پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی ان کا اعلان کرتی ہے۔
جغرافیائی اور موسمی فرق کی بنا پر چاند کا طلوع ہونا اور اسے دیکھنا ایک ہی وقت میں تمام مسلم ممالک میں ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان کئی تہوار ایک ساتھ نہیں منا سکتے۔ مگر اب جب کہ دنیا ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے اور سوشل میڈیا کی بنا پر جغرافیائی فاصلے سمٹ گئے ہیں، بہت سے مسلمان یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی مشترکہ حل نکالا جانا چاہیے۔
مختلف ممالک میں ماہ رمضان کی رسوم
پیر کے روز یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں پہلا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان اس مہینے کا استقبال کیسے کرتے ہیں؟ دیکھیے اس پِکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
ساراجیوو – بوسنیا
سراجیوو میں مقامی روایات کے مطابق ہر روز افطار کے وقت توپ چلائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
چاند دیکھنے کی روایت
تصویر میں تیونسی شہری دوربین کی مدد سے رمضان کا چاند دیکھ رہے ہیں۔ دوربین کے علاوہ کئی ملکوں میں کھلی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی روایت بھی ہے، اسی لیے مختلف ممالک میں رمضان کا آغاز بھی مختلف دنوں میں ہوتا ہے۔
مصر میں ماہ رمضان کے دوران روایتی لالٹین روشن کرنا جزو لازم سمجھی جاتی ہے۔ قاہرہ کی شاہراہ سیدہ زینب پر رمضان شروع ہوتے ہی یہ لالٹینیں فروخت کے لیے رکھ دی گئی ہیں۔
تصویر: DW/A. Al Badry
استنبول کی نیلی مسجد میں نماز تراویح پڑھتی خواتین
استنبول کی سلطان احمد مسجد کو نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے روزے کے بعد ترک خواتین یہاں نماز تراویح پڑھ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/E. Eladi
غزہ، فلسطین
مصر کی طرح غزہ کے بازاروں میں بھی رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی رنگ برنگی لالٹینیں روشن ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
تہران کے بازار اور افطاری کا سامان
ایران میں بھی افطار کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ تہران کے بازاروں میں رمضان کے آغاز سے ہی خریداروں کا رش بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/F. Bahrami
پاکستان، کھجوریں اور پکوڑے
پاکستان بھر میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں ہر طرف کھجوریں، پکوڑے اور سموسے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
الجزائر، افطار اور مٹھائی
الجزائر میں رمضان کے مہینے میں شہد اور مٹھائی روزے رکھنے والوں میں مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Belghoul
کابل کی بیکریاں
کابل میں بھی رمضان کے مہینے میں بیکریوں میں مٹھائی خریدنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
9 تصاویر1 | 9
مگر یہ معاملہ پیچیدہ اور حساس ہے، کیوں کہ بہت سے مسلمان جہاں اس سلسلے میں سائنسی ٹینکالوجی کی مدد سے ایک کیلنڈر بنانے کے حق میں ہیں، تو دوسری جانب ایسے افراد بھی موجود ہیں، جو چاند کے نظر آنے تک قمری مہینے یا تاریخ کی بابت فیصلے کو نادرست سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی ہر قمری مہینے کا اعلان کرتی ہے، تاہم قریب ہر برس پاکستان کے سرکاری ادارے رویت ہلال کمیٹی اور دیگر مسلم ایسوسی ایشن کے درمیان رمضان اور عید کے موقع پر تنازعہ دیکھا جاتا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے نہ صرف سماجی سطح پر بحث دیکھی جاتی ہے بلکہ کئی مرتبہ تو مظاہرے تک دیکھے گئے ہیں۔
مسلمانوں کے علاوہ کون کون روزے رکھتا ہے؟
ماہ رمضان مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مہینہ ہے، جس میں وہ روزے رکھتے ہیں، تاہم روزہ رکھنے کے اعتبار سے وہ تنہا نہیں بلکہ متعدد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی روزے رکھتے ہیں، تاہم طریقہ ہائے کار مختلف ہیں۔
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images
رمضان میں روزہ بھی عبادات بھی
ماہ رمضان میں سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد بھی زیادہ دکھائی دیتی ہے، جب کہ مختلف ممالک میں نمازِ عشاء کے بعد تراویح کا بھی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
مسیحی روزے دار
مسیحیت میں گو کے روزے کسی فرض عمل کے طور پر نہیں، مگر ایسا بھی نہیں کہ مسیحیت میں روزہ رکھنے کی تاکید نہ کی گئی ہوئی۔ مسیحی روزداروں کے مطابق ان کے ہاں روزے کا مقصد دنیاوی چیزوں سے منہ موڑ کر خدا پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
تصویر: Imago/epd
ہندوؤں کا روزہ
ہندو مت میں روزہ رکھنے کی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ روزہ عام اشیاء سے دوری سے لے کر کھانے پینے سے شدید نوعیت تک کی دوری کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ ہندومت میں دن اور طریقہ ہائے کار باقاعدہ طور پر طے نہیں ہیں اور یہ کوئی برادری، خاندان اور فرد خود سے طے کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
یہودیت کے روزے
یہودیت کے اعتبار سے دو مکمل دن کے روزے یعنی غروب آفتاب سے اگلے روز رات تک جب کہ متعدد چھوٹے روزے بھی ہیں۔ ان روزوں میں مختلف طرز کی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تاہم طویل روزوں میں کھانے پینے اور جنسی تعلق سے دور رہنے کے علاوہ چمڑے کے جوتے، پرفیوم، تیل، حتیٰ کہ نہانے تک سے دور رہا جاتا ہے۔ یہودیت میں دو مکمل روزے فرض کے طور پر رکھے جاتے ہیں، جب کہ چھوٹے روزے چند مخصوص حالات میں لازم ہوتے ہیں۔
تصویر: Menahem Kahana/AFP/Getty Images
بدھ مت کے روزے
مہاتما بدھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خود انہوں نے شدید نوعیت کے روزے رکھنے سے ہی نروان حاصل کیا تھا، تاہم بدھ مت میں روزے سے متعلق مختلف طرز کے طریق رائج ہیں۔ جن میں دن میں ایک بار کھانے سے لے کر فقط ایک تھالی کھانے تک کا طریقہ شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
مورمون روزے دار
چرچ آف جیزز کرائسٹ لیٹر ڈے سینٹ (مورمونز) مذہب میں ہر ماہ کے پہلے اتوار کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس میں کسی شخص کو دو وقت کے کھانے اور پینے سے پرہیز کرنا ہوتا ہے، جب کہ اس کھانے سے بچایا جانے والا پیسہ چرچ کو دینا ہوتا ہے۔ اس اتوار کو اس برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مل کر روزہ رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کا اعادہ کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Frey
ایزدی روزے
تمام ایزدیوں کو دسمبر کے تین دن روزے رکھنا ہوتے ہیں، جن میں علی الصبح سے شام تک کھانے پینے سے اجتناب برتا جاتا ہے، جب کہ ان تین دنوں میں رات بھر عبادت کی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jalal
7 تصاویر1 | 7
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تاہم اب یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں چاند دیکھنے کے لیے سائنسی طریقہ ہائے کار کا استعمال کیا جائے گا اور آئندہ برس سائنسی بنیادوں پر ایک کلینڈر کا اہتمام کر دیا جائے گا۔ یہ بات واضح نہیں کہ آیا فواد چوہدری کی یہ تجویز عملی طور پر لاگو ہو پائے گی یا نہیں، تاہم اس معاملے پر سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین کے درمیان زبردست بحث ہو رہی ہے۔