1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

”سب کو معلوم ہے ’سرحد‘ کی حقیقت لیکن...“

جاوید اختر، نئی دہلی
8 جون 2020

بھارت کی طرف سے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ اور فوجی تعطل کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پر اتفاق رائے کے اعلان کے ایک دن بعد اپوزیشن کانگریس نے اس معاملے پرمودی حکومت سے عوام کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

Archivbild | Indien Ladakh | Chinesische Truppen an Grenze mit Banner
تصویر: picture-alliance/AP Photo

کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے طنزیہ ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا”سب کو معلوم ہے ’سرحد‘ کی حقیقت لیکن۔ دل کو خوش رکھنے کو ’شاہ۔ ید  یہ خیال اچھا ہے۔“

دراصل بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اتوار کے روز ایک ڈیجیٹل عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا”بھارت کے دفاعی پالیسی کی اب عالمی سطح پر تعریف ہورہی ہے اور ہر کوئی اسے تسلیم کررہا۔ پوری دنیا یہ مانتی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے بعد اگر کوئی ملک ہے جو اپنی سرحدو ں کی دفاع کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو وہ بھارت ہے۔“

بھارتی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ”ایک وقت تھا جب کوئی بھی ہماری سرحد میں داخل ہوجاتا تھا، ہمارے فوجیوں کا سر کاٹ لیتا تھا اور دہلی دربار(وفاقی حکومت) کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہمارے وقت میں اڑی اور پلوامہ ہوئے۔ یہ وزیر اعظم نریندرمودی اور بی جے پی حکومت تھی جنہوں نے سرجیکل اور ایئراسٹرائیک کیا۔“

راہول گاندھی نے امیت شاہ کے بیان کو ٹیگ کرتے ہوئے آج ٹوئٹ کیا کہ سرحد  پر جو حقیقی صورت حال ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔  انہوں نے مرزا غالب کے ایک شعرمیں تصرف کر تے ہوئے لکھا” سب کو معلوم ہے ’سرحد‘ کی حقیقت لیکن،  دل کو خوش رکھنے کو ’شاہ۔ید‘ یہ خیال اچھا ہے۔“


راہول گاندھی نے اس سے قبل بھی ایک ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی کی حقیقت جاننے کے لیے تمام محب وطن کو سابق لفٹننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا مضمون ضرور پڑھنا چاہئے۔  جنرل پناگ نے حقیقی کنٹرول لائن پر متنازعہ علاقو ں پر چینی فوجیوں کی موجودگی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چین اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہے او رمذاکرات کے دوران ناقابل قبو ل شرائط منوانے کی کوشش کرے گا۔ دوسری طرف بھارت کمزور پوزیشن میں ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ اس بات پر زور دے گا کہ یکم اپریل 2020کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ جنرل پناگ نے مزید لکھا ہے کہ نریندرمودی حکومت اور فوج نے موجودہ فوجی تعطل کے بارے میں کوئی واضح لائحہ عمل اپنانے اور قوم کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کے بجائے بھارتی علاقوں پر چینی قبضے کے بارے میں ’تردیدی‘ موقف اپنایا۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر برہم چیلانی نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں جنرل پناگ کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے لکھا”سرحدی تنازعہ پر بات چیت کے دوران چین نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ بھارت کو اپنے مساوی نہیں بلکہ کمتر سمجھتا ہے۔ چین کے قبضے والے علاقے میں بات چیت ہوئی اور چین کی نمائندگی ایک میجر جنرل نے کی جب کہ بھارت نے اپنے ایک سینئر لفٹننٹ جنرل،جو کہ کور کمانڈر بھی ہیں، کو بات چیت کے لیے بھیجا تھا۔

بھارتی وفد کی قیادت لیہ بیس 14 کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹننٹ جنرل ہریندر سنگھ کر رہے تھے جب کہ چینی وفد کی سربراہی تبت فوجی ضلع کے کمانڈر میجر جنرل لیو لن کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ تقریباً ایک ماہ سے جاری سرحدی تنازعہ اور فوجی تعطل کو دور کرنے کے لیے سرحدی علاقے پانگونگ کے قریب دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان دو روز تک چلنے والی میٹنگ کے بعد بھارتی وزارت خارجہ نے کل ایک بیان جاری کرکے بتایا کہ دونوں ممالک فوجی تعطل اور سرحدی تنازعہ کو سفارتی اور فوجی چینلوں کے مابین بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔

وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں گوکہ اس بات چیت کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی تاہم یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ معاملے کے حل کے لیے ابھی کوئی فارمولہ تیار نہیں کیا گیا لیکن اس کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت جاری رہے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اور چین نے حالیہ ہفتوں میں سرحدی علاقے کی صورت حال کے حل کے لیے سفارتی اور فوجی چینلوں کے ذریعہ بات چیت کا سلسلہ برقرار رکھا ہے۔ بیان میں وزیر اعظم مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان گزشتہ اکتوبر میں ہوئی ملاقات کا  ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70ویں سالگرہ ہے۔اس پس منظر میں دونوں ممالک تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں گے۔

خیال رہے کہ لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کی فوجیں تقریباً ایک ماہ سے آمنے سامنے ہیں۔ دونوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں جن میں متعدد فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ثالث بننے کی پیش کش کی تھی لیکن بھارت اور چین دونوں نے یہ تجویز مسترد کردی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں