ستائیسویں آئینی ترمیم کی ضرورت اور تنازعہ
7 نومبر 2025
پاکستان میں حکومت کی جانب سے مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم کی پارلیمان سے منظوری کے لیے درکار عددی برتری کے حصول کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم ملک کے لیے ناگزیر ہے تاہم منظوری کے لیے پارلیمان میں درکار دو تہائی اکثریت فقط تبھی حاصل ہو سکتی ہے، جب حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتیں اس کا ساتھ دیں۔
اس ترمیم کے مسودے میں صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت ملنے والے طے شدہ رقم کے حصے میں کمی، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی دستوری شق، فوج سے متعلق آئینی شق اور الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے متعلق نکات شامل ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اس ترمیم پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کر رہی ہے کہ موجودہ اسمبلیاں وسیع تر انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں اور ان کے پاسآئینی ترمیم کا مینڈیٹ موجود نہیں ہے۔
اس ترمیم کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ایک طرح سے تبدیل کر دینے سے تشبیہ دی جا رہی تھی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے خاتمے اور پاکستان میں دوبارہ جمہوری نظام کی بحالی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی۔ اس وقت بھی یہی دو جماعتیں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
اس معاملے پر گزشتہ روز حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کی۔ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں پارٹی سربراہ بلال بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی تمام تجاویز میں سے کچھ کو ان کی جماعت نے کلی طور پر مسترد کر دیا ہے اور کچھ پر جزوی اختلاف موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت حکومتی مسودے میں شامل صرف ایک نکتے کی حمایت کرتی ہے، جو آئین کا آرٹیکل243 سے متعلق ہے۔ جس کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کے قانونی دائرہ عمل کا تعین ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی بیرسٹر دانیال چوہدری نے کہا کہ ستائیویں آئینی ترمیم سے متعلق سامنے آنے والے خدشات بے بنیاد ہیں۔
این ایف سی ایوارڈ پر اختلافات
ستائیسویں آئینی ترمیم میں ایک اہم نکتہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں طے کردہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو ملنے والی طے شدہ مالیاتی حصے میں کمی سے متعلق ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس تبدیلی کو یکسر مسترد کر دیا ہے جب کہ نون لیگ اسے انتہائی ضروری تصور کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا تاہم کہنا ہے کہ وہ مزید غور کے لیے جمعے کے روز بھی اپنی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس جاری رکھے گی۔
اس سے قبل ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وزیراعظم عمران خان نے بھی این ایف سی ایوارڈ کو وفاق کے لیے سرمایے کی قلت کا باعث قرار دیتے ہوئے تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں دانیال چوہدری نے پیپلز پارٹی کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی کے نتیجے میں زیادہ تر سرمایہ صوبوں کو متنقل ہو جاتا ہے، وفاق کے پاس سرمایے کی شدید قلت ہو جاتی ہے، جو قرضوں میں اضافے کی باعث بنتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی تجویز ہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطوں کو بھی این ایف سی ایوارڈ ہی میں شامل کیا جانا چاہیے۔
دانیال چوہدری نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ محض آبادی یا شرح پیدائش کی بنیاد پر ریاستی سرمایے کی تقسیم کے نظام میں تبدیلی کی جائے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق دستوری تبدیلی سے صوبوں کے حصوں میں کمی آئے گی، جو حکمران اتحاد کے درمیان واضح تفریق کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے لیے اس معاملے پر ن لیگ سے اتفاق مشکل نظر آتا ہے۔
آئینی عدالت کا قیام
ستائیسویں آئینی ترمیم میں ایک اور اہم نکتہ آئینی عدالت کے قیام سے متعلق ہے۔ حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی تھی تاہم مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کی جانب سے اس نکتے پر پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے بعد آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
جب کہ بعد میں پی ٹی آئی نے اس معاملے پر بھی ووٹ نہیں دیا۔ حکومت اب ستائیسویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام چاہتی ہے۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ وہ فی الحال اس نکتے پر کوئی پیش رفت نہیں چاہتی۔
یہ بات اہم ہے کہ ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے سن 2006 میں لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاق جمہوریت نامی دستاویز پر دستخط کیے تھے، جس میں ملک میں آئینی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ن لیگ کا موقف ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں طے کردہ نکات کے مطابق ملک میں آئینی عدالت کا قیام ہونا چاہیے۔ تاہم گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں بہت سے دیگر معاملات پر بھی اتفاق ہوا تھا، پہلے ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔
عاصہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم میں آئینی بیچوں کے قیام کی منظوری کے بعد ان کے دائرہ عمل اور نظام سے متعلق کئی طرح کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی ضرورت ہے اور اس لیے ستائیسویں آئینی ترمیم میں یہ نکتہ زیربحث ہے۔
بیرسٹر دانیال چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومتی تجویز یہ ہے کہ جج اپنے نظام کے تحت خودکار طریقے سے ایک مخصوص عرصے کے بعد کسی دوسرے علاقے میں ٹرانسفر ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی جگہ پر لامحدود عرصے تک ایک ہی کام کرنے سے عدالتی فعالیت اور انصاف کے اصول پامال ہوتے ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ آئینی عدالت میں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی کی خواہاں ہے، اس لیے موجودہ حکومتی تجویز اسے قبول نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر ڈیڈ لاک
پاکستان میں اس وقت دستوری طور پر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی حکومت اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی رضامندی سے کیے جانے کی شرط درج ہے، تاہم دانیال چوہدری کے مطابق حکومت اس کو بدلنا چاہتی ہے کیوں کہ بعض اوقات ڈیڈلاک کی صورت میں الیکشن کمشنر کا تقرر مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت الیکشن کمشن کے ارکان کے تقرر کے لیے ایک کمیٹی کا قیام چاہتی ہے، جس کے ارکان سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے چنے جائیں جب کہ وہ کمیٹی الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کرے۔
فی الحال اس آئینی ترمیم پر عوامی بحث جاری ہے جب کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم جتنی تیزی سے لائی جا رہی ہے اور اب تک اس ترمیم کے مسودے کو جس طرح عوامی سطح پر بحث سے الگ رکھا گیا ہے، یہ اس ترمیم کو متنازعہ بناتا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی مقبول جماعت تحریک انصاف کو اس ترمیم کے سلسلے میں اعتماد میں لیے بغیر اور اس کی مرضی شامل کیے بغیر کسی بھی ترمیم کی منظوری ایک سودمند راستہ نہیں ہو گی۔