’ستائیسویں آئینی ترمیم ڈر اور خوف کی پیداوار ہے‘
10 نومبر 2025
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے آج دس نومبر بروز پیر ملکی آئین میں ستائیسویں مجوزہ ترمیم کے بل کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی۔ حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں اس بل پر شق وار ووٹنگ کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا۔
اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ حکومت ایوان میں موجود اراکین کی گنتی پوری کیے بغیر ووٹنگ کسی طر ح کر سکتی ہے۔
تاہم ووٹنگ کے اختتام پر چئیرمین سینیٹ نے نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی منظوری کے لیے پیش کی گئی قرادار کی حمایت میں چونسٹھ اراکین نے ووٹ دیا جب کہ اس کی مخالفت میں کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔
چئیرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی علیل ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکے جبکہ انہوں (گیلانی) نے بطور چئیرمین سینیٹ اپنا ووٹ بھی کاسٹ نہیں کیا۔
’ووٹ صرف فیلڈ مارشل کے لیے‘
اس ووٹنگ کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اپوزیشن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰان) کے سینٹر احمد خان نے بھی اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔
بعد ازاں سیف اللہ ابڑو نے ایوان میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس سے قبل ایک مختصر خطاب میں کہا، ''میں نے حالیہ جنگ میں بھارت کے خلاف پاک فوج اور خاص طور پر فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے کردار کی وجہ سے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔‘‘
سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے حتمی منظوری کے بعد صدر کے دستخطوں کے ساتھ یہ آئین کا حصہ بن جائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس بل کو انتہائی عجلت میں منظور کروایا ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر اور سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اتنی جلدی سے کی گئی آئینی ترمیم کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا، '' آپ گولیوں کے ذریعے آئین کا نفاذ نہیں کر سکتے۔‘‘
تاہم سینیٹ میں قائد ایوان اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بل کی منظوری پر اراکین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اس پر اتفاق رائے اور ایوان میں بحث کے لیے تمام ضروری مراحل مکمل کیے گئے۔ چیئرمین سینیٹ نے بھی کہا کہ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر ایوان کی کارروائی 'بلڈوز‘ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟
-
آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز بنانے کی تجویز
-
فیلڈ مارشل جنرل اور صدر مملکت کے لیے تاحیات استثنیٰ
-
آئینی عدالت کا قیام
-
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کا خاتمہ
-
ہائیکورٹ کے ججوں کے تبادلوں کا اختیار
'اتنا خوف کس کا؟‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور آئینی و قانونی امور کے ماہر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اس نئی آئینی ترمیم کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے مسودے کا سینیٹ میں پیش کیے جانے تک مخفی رکھا جانا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' اس آئینی ترمیم کا مسودہ پہلی بار اس وقت منظر عام پر آیا جب وزیر قانون نے اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سامنے پیش کرتے ہی اس کی خوبیاں گنوانا شروع کر دیں۔‘‘
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ سارا غیر جمہوری طریقہ کار صرف ایک شخص کو انتہائی با اختیار بنانے کے لیے اختیار کیا گیا۔
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا،'' فیلڈ مارشل کو تاحیات استثنیٰ دے کر یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ اگر کل عوام کی کوئی اصل نمائندہ حکومت آ بھی جاتی ہے، تو آپ کو کسی قسم کے احتساب کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔‘‘
تاہم اعتزاز احسن کا کہنا تھا، '' میں یقین دلاتا ہوں کہ ایسی کوئی بھی آئینی ترمیم، جو کسی فرد واحد کے مفاد کا تحفظ کرے، یا ایسا کوئی بھی قانون جو عوام سے مخفی رکھ کر منظور کیا جائے، کبھی بھی دیرپا نہیں ہوسکتے۔‘‘
اعتزاز احسن کا کہنا تھا سب کو معلوم ہے کہ نہ ہی ن لیگ اور نہ ہی پی پی پی کبھی فیلڈ مارشل کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی کرے گی، '' تو پھر ایسا کون کر سکتا ہے، یہ انہیں کس کا ڈر ہے، صرف عمران خان کا ڈر! انہیں معلوم ہے کہ وہ جیل سے واپس آگیا تو پھر انہیں استثنیٰ کی ضرورت پڑے گی۔‘‘
صدر کے لیے بھی تاحیات استثنیٰ
خیال رہے کہ پیر کے روز سینیٹ سے منظور کیے گئے آئینی ترمیم کے مسودے میں صدر مملکت کو بھی کسی فوجداری کارروائی سے تا حیات استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ تاہم اس شق میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی اور سرکاری عہدہ رکھتے ہیں تو پھر یہ استثنیٰ ختم تصور ہو گا۔
اس سے قبل آئین کے تحت صدر اور صوبائی گورنرروں کو صرف ان کے عہدوں پر رہتے ہوئے کسی بھی فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹوو ڈیولپمنٹ (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے حکومتی عہدیداروں کو تاحیات استثنیٰ دینا مناسب عمل نہیں ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''صدر، گورنر یا کسی بھی اہم ریاستی عہدیدار کو ان کی ملازمت کے دوران استثنیٰ دینا ایک الگ بات ہے، جو کسی حد تک قابل فہم بھی ہے، لیکن انہیں تاحیات استثنیٰ دینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں اور نہ ہی مہذب دنیا میں اس کی کوئی مثال نظر آتی ہے۔‘‘
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڈ نے صدر کے استثنیٰ کی تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سمیت پوری دنیا میں سربراہِ ریاست کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اور ریاست کے سربراہ کو استثنیٰ دینے میں کوئی حرج نہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے استثنیٰ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی ہدایت پر اس متعلق تجویز کردہ شق واپس لے لی گئی ہے۔
آرمی چیف تینوں مسلح افواج کے سربراہ بھی
ستائیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائز پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کو مقرر کریں گے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیمی مسودے کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم ہو جائے گا۔
چیف آف آرمی اسٹاف جو چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے، وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے اور نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق بھی بری فوج سے ہو گا۔
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ وہ ستائیسویں ترمیم کے اس حصے کو درست سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ رسمی تھا، اب اس کو ختم کر کے اگر ایک یونیفائیڈ کمانڈ بنا دی جائے تو یہ پیشہ وارانہ لحاظ سے ایک بہتر فیصلہ ہو گا۔‘‘
آئینی عدالت کا قیام غیر آئینی؟
سینیٹ میں قانون وانصاف کی قائمہ کمیٹی کے چئیرمین اور پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے ستائیسویں آئینی ترمیم سے متعلق اپنی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام سے متعلق شق میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔
انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم میں تمام صوبوں کی عدالتیں شامل ہیں۔
ان کے مطابق ہائیکورٹ کا بھی آئینی کورٹ میں حصہ ہو گا، ہائیکورٹ کا جج آئینی عدالت کے لیے نامزد ہوگا، جس کے لیے کمیٹی نے کہا ہے اس کی اہلیت سات کے بجائے پانچ سال ہوگی۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ حکومت جس انداز میں آئینی عدالت کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کا مقصد آئین کا تحفظ نہیں بلکہ صرف اور صرف سپریم کورٹ کو سر نگوں کرنا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اب عملاﹰ کوئی سپریم کورٹ نہیں رہے گی اور جس طرح سے ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کی بات کی جا رہی ہے اس سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں طوائف الملوکی پھیلے گی۔‘‘
ججوں کے تبادلوں کا اختیار
27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ایک ہائیکورٹ کے جج کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر کسی دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔ اس مجوزہ ترمیم میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ہائیکورٹ کا کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو سپریم جوڈیشل کونسل اس کے خلاف تیسں دن کے اندر کارروائی شروع کر دے گی۔ اس دوران یہ جج اپنے فرائض بھی ادا نہیں کر سکے گا۔
آئینی امور اور سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ بظاہر حکومت اعلیٰ عدلیہ مین اپنے ''ہینڈ پکڈ‘‘ ججوں کو تعینات کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے پورے جوڈیشل سسٹم کی بنیادوں کو ہلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا،''یہ صرف فیلڈ مارشل یا صدر کے لیے نہیں بلکہ پوری اسٹیبلشمنٹ کے لیے استثنیٰ کے حصول کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘
خیال کیا جا رہا تھا کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی، تعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کی صوبوں سے وفاق کو واپسی اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) میں صوبوں کے حصوں میں کمی سے متعلق ترامیم کو بھی ستائیسیوں آئینی ترمیم کا حصہ بنائے گی تاہم اپنی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مذکورہ شقوں پر عدم اتفاق کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی۔
چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ تعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اس معاملے میں مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھ کر اتفاق رائے کے ساتھ حل کر لیا جائے، اس پر کسی آئینی ترمیم کے لانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اسئ دوران پیر کی شام کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ساتائیسویں آئینی ترمیم پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور توقع کی جاری ہے ہ اسے وہاں سے بھی جلد منظوری مل جائے گی۔
ادارت: عاطف توقیر