ترکی میں انسانی اسمگلروں کی قید سے آزاد کرائے گئے ستاون غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن اب ترک پولیس کی تحویل میں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے بتایا گیا ہے۔
اشتہار
انقرہ میں پاکستانی سفارتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فی الحال ان افراد کو پولیس نے ایک فٹبال اسٹیڈیم سے ملحق کمروں میں رکھا ہے۔ پولیس کی چھان بین مکمل ہونے کے بعد ان افراد کو پاکستانی قونصلر تک رسائی دی جائے گی۔ استنبول میں پاکستانی قونصلیٹ کا عملہ ان افراد کے کوائف کی تصدیق کرے گا، جس کے بعد انہیں پاکستان واپس بھجوایا جا ئے گا۔
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ایک پاکستانی اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستانی امیگریشن قانون کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جو اپنی پاکستانی شہریت ثابت نہ کر سکے وہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل نہیں ہو سکتا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی اکثریت پاکستانی پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات اپنے ہمراہ نہیں رکھتی، اس لیے ان کی شہریت کی تصدیق کا عمل ان کی فراہم کی گئی معلومات کے مطابق کیا جاتا ہے، جو بعض مرتبہ خاصہ وقت طلب ہوتا ہے۔
سن دو ہزار پندرہ کے دوران غیرقانونی تارکین وطن کی ملک واپسی میں یکدم اضافے کے بعد سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پاکستانی شہریت کی تصدیق کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کا حکم جاری کیا تھا۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) نے اس کے بعد یونان سے واپس بھجوائے جانیوالے طیاروں میں سے بہت سے افراد کی شہریت کی تصدیق نہ ہونے کے سبب انہیں واپس یونان بھجوا دیا تھا۔
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔
تصویر: Edward Crawford
10 تصاویر1 | 10
منگل کے روز استنبول شہر کے یورپی حصے میں واقع ایک مکان کے تہہ خانے سے بازیاب کرائے گئے ان ستاون پاکستانیوں کی حالت خاصی خراب بتائی جاتی ہے اور بعض کو طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں بھی داخل کرایا گیا ہے۔ ان بازیاب کرائے گئے افراد میں گجرات کا رہائشی محمد امین(فرضی نام) بھی شامل ہے۔ اس کے استنبول میں پہلے سے موجود ماموں زاد عبدالرحمان نے(فرضی نام) ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا کزن کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ عبدالرحمان خود بھی غیر قانونی طریقے سے ڈیڑھ سال قبل یورپ جانے کے لئے ایک ایجنٹ کو ایک لاکھ روپے ادا کر کے ایران کے راستے استنبول پہنچا تھا۔
تاہم یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کے بارے میں کیے گئے معاہدے کے سبب اسے سمندری راستے سے یونان پہنچنے میں دشواریوں کا سامنا رہا اور پھر اس نے ترکی میں ہی محنت مزدوری شروع کر دی۔ اپنے ماموں زاد کی ترکی آمد کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اسے صاف بتا دیا تھا کہ یہاں حالات اچھے نہیں اور ابھی پار (یورپ) جانے کا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘ تاہم عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ اسے نہیں معلوم کے اس کا کزن کب اور کن حالات میں ترکی پہنچا۔ اس کے بقول اسے صرف اسی وقت معلوم ہو سکا جب اس کے ایک دوست کے جاننے والے نے بتایا کہ بازیات ہونیوالوں میں اس کا ماموں زاد بھی شامل ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے اس کا اپنے کزن سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اور امین کے گھر والے کہہ رہے تھے کہ وہ مزدوری کے لئے کراچی گیا ہوا ہے۔
عبدالرحمان نے کہا کہ وہ اب امین سے ملنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے یہ بات قابل اطمینان ہے کہ وہ کم ازکم زیر علاج افراد میں نہیں۔
عبدالرحمان کا مزید کہنا تھا کہ خود بھی غیر قانونی ہونے کی وجہ سے وہ اس کا پتہ کرنے پولیس یا سفارت خانے سے بھی رابطہ نہیں کر سکتا، ’’اب یہی ہو سکتا ہے کہ اسے فون ملے تو وہ خود رابطہ کرے یا مجھے اس کا فون نمبر مل جائے تو اس سے رابطہ ہو سکے۔‘‘