جرمنی: ’ستاون ہزار تارکین وطن ملک بدر کیے جانا ہیں‘
2 دسمبر 2018
جرمن حکومت نے بتایا ہے کہ جرمنی میں ستاون ہزار سے زائد غیر ملکی ایسے ہیں جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ بات لنکے پارٹی کی سیاست دان کے ایک سوال کے جواب میں بتائی ہے۔
اشتہار
جرمنی کی وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک جرمنی میں دو لاکھ پینتیس ہزار ایسے غیر ملکی مقیم تھے، جنہیں قانونی طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جانا چاہیے۔
بائیں بازو کی سیاسی جماعت لنکے کی سیاست دان اولا یلپکے کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں برلن حکومت نے بتایا کہ ان 234986 غیر ملکیوں میں سے قریب دو تہائی (ایک لاکھ اٹھہتر ہزار) کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت یا ملک بدری پر پابندی (جسے ڈُلڈنگ بھی کہا جاتا ہے) عائد کی جا چکی ہے۔
تاہم اس کے باوجود سرکاری ریکارڈ کے مطابق ستاون ہزار ایک سو بارہ غیر ملکی ایسے ہیں جن کے پاس جرمنی میں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور اسی لیے انہیں لازمی طور پر ملک بدر کر دیا جانا ہے۔
حکومت کے مطابق جن پونے دو لاکھ افراد کو عارضی قیام کی اجازت دی گئی، ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان، عراق اور سربیا جیسے ممالک سے ہے۔ ان افراد کی ملک بدری پر عارضی پابندی انسانی بنیادوں یا انتظامی وجوہات کی بنا پر عائد کی گئی ہے۔
اولا یلپکے نے اس حوالے سے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’جن افراد کی ملک بدریوں پر عارضی پابندی لگائی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہیں بہتر وجہ سے ملک بدر کیا ہی نہیں جانا چاہیے۔‘‘ یلپکے نے ڈُلڈنگ کے حامل افراد کو ملک بدر نہ کرنے کی حمایت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’زیادہ سے زیادہ ملک بدریوں کا مطالبہ کرنے کی بجائے ہمیں ان افراد کے لیے موثر رہائشی حقوق فراہم کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘
ش ح/ ع ب (ڈی پی اے)
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔