’سترہ فیصد کا ریکارڈ مجرمانہ اور چار سو ایک کروڑ پتی‘
10 اپریل 2019آج جن اہم سیاسی رہنماوں کی قسمت داؤ پر ہے، ان میں وفاقی وزیر اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما نتن گڈکری، نائب وزیر خارجہ جنرل وی کے سنگھ، شعلہ بیان مقرر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اور سابق وزیر اعظم چرن سنگھ کے بیٹے راشٹریہ لوک دل کے صدر اجیت سنگھ شامل ہیں۔
’سترہ فیصد مجرمانہ ریکارڈ والے‘
پہلے مرحلے میں قسمت آزمانے والے 1279امیدواروں میں سے سترہ فیصد کے خلاف کوئی نہ کوئی مجرمانہ معاملہ درج ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اے ڈی آر) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پہلے مرحلے کے امیدوارں نے، جو حلف نامے دیے ہیں، ان کے مطابق 146 کے خلاف سنگین جرائم کے ریکارڈ ہیں۔ ان میں سے دس کے خلاف قتل اور پچیس کے خلاف اقدام قتل میں ملوث ہونے کے مقدمات درج ہیں۔کانگریس کے 83 میں سے 35 یعنی 42 فیصد اور بی جے پی کے 83 میں سے 30 یعنی 36 فیصد امیدواروں نے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا حلفیہ بیان دیا ہے۔ کانگریس کے بائیس اور بی جے پی کے سولہ امیدواروں پر سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔
’چار سو ایک کروڑ پتی‘
اے ڈی آر کے مطابق پہلے مرحلے کے امیدواروں میں چار سو ایک نے اپنے حلف نامے میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی اثاثوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں کانگریس کے انہتر یعنی 83 فیصد اور بی جے پی کے پینسٹھ یعنی 78 فیصد امیدوار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان امیدواروں میں سب سے امیر اور سب سے غریب امیدوار دونوں ایک ہی پارلیمانی حلقہ تلنگانہ صوبہ کے چیپویلا سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہاں کانگریس کے کونڈا ویشیشور ریڈی نے اپنی جائیداد 895 کروڑ روپے بتائی ہے، جب کہ پریم جنتا پارٹی کے نلا پریم کمار کے حلفیہ بیان کے مطابق ان کی جائیداد کی مالیت صرف پانچ سو روپے ہے۔ اے ڈی آر کے مطابق پہلے مرحلے میں اٹھانوے یعنی صرف سات فیصد خواتین کو ہی سیاسی جماعتوں نے امیدوار بنایا ہے، جس سے خواتین کو سیاسی لحاظ سے بااختیار بنانے کے وعدوں اور دعوؤں کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔
’مودی کو ملیں گی کم سیٹیں‘
پہلے مرحلے کی پولنگ سے قبل مختلف اداروں کی جانب سے پیش کردہ جائزوں کے مطابق، جن اکیانوے حلقوں میں پولنگ ہو رہی ہے، ان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو 2014 کے مقابلے اس مرتبہ کم سیٹیں ملنے کی توقع ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات میں ان اکیانوے میں سے پینتیس فیصد یعنی بتیس سیٹیں حکمراں بی جے پی نے جیتی تھیں، جب کہ کانگریس آٹھ فیصد یعنی صرف سات سیٹیں ہی جیت سکی تھی۔
’بی جے پی اور مودی کو کئی دھچکے‘
پہلے مرحلے کی پولنگ سے ٹھیک ایک روز قبل حکمراں بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو کئی دھچکے لگے۔ الیکشن کمیشن نے نریندر مودی پربایوپک فلم ’پی ایم نریندر مودی‘ کی ریلیز پر پابندی لگا دی ۔ اپوزیشن جماعتوں نے فلم کی ریلیز پر پابندی کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا، جب سپریم کورٹ نے جنگی طیارے رافیل کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کے کیس کی دوبارہ سماعت کرنے سے اتفاق کر لیا۔ اس سے قبل گزشہ برس جب عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرنے سے انکار کیا تھا تو وزیر اعظم مودی نے اسے اپنی حکومت کو سپریم کو رٹ کی طرف سے کلین چٹ دیے جانے سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن اب ان کے دعوے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر حملہ تیز کر دیا ہے۔
کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے کہا، ’’سپریم کورٹ نے بھی اب تسلیم کر لیا ہے کہ رافیل سودے میں بدعنوانی ہوئی تھی۔ وہ وزیر اعظم کو بدعنوانی پر بحث کے لئے چیلنج کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مان لیا ہے کہ چوکیدار نے چوری کی ہے۔‘‘
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مودی جی نے رافیل میں چوری کی ہے۔ اترپردیش کی سابق وزیر اعلی اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے وزیر اعظم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام سے معافی مانگیں۔
بی جے پی کو تیسرا دھچکا اس وقت لگا، جب الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم نریندر مودی کے کارناموں کو مشتہر کرنے والے چینل نمو ٹی وی (NaMoTv)کو سیاسی اشتہارات کے زمرے میں شامل کر دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بی جے پی کو اب اس چینل پر نشر ہونے والے پروگراموں کے لئے اشتہارات کی اشاعت کی طرح پروگراموں کو نشر کرنے سے پہلے اجازت لینی ہو گی ۔
’عمران خان مودی کے لئے وبال جان‘
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا تازہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی اور حکمراں بی جے پی کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا، ’’انہیں ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے بہتر ماحول بن سکتا ہے۔‘‘ اس بیان پر تو گویا پوری اپوزیشن بی جے پی پر ٹوٹ پڑی ہے۔
کانگریس کے اعلی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا، ’’پاکستان نے مودی کے ساتھ آفیشل اتحاد کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے’ مودی کو ووٹ دینے کا مطلب ہے پاکستان کو ووٹ دینا‘۔ مودی جی، پہلے نواز شریف سے پیار اور اب عمران خان آپ کا چہتا یار! ڈھول کی پول کھل گئی۔‘‘
دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے ٹویٹ کیا،’’پاکستان مودی جی کو کیوں کامیاب بنانا چاہتا ہے؟ مودی جی ملک کو بتائیں کہ پاکستان سے ان کے کتنے گہرے رشتے ہیں؟ تمام بھارتی شہری یہ جان لیں کہ اگر مودی جی کامیاب ہوئے تو پاکستان میں پٹاخیں پھوٹیں گے۔‘‘
’معاملہ الٹا پڑگیا‘
دراصل بی جے پی ایک عرصے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہےکہ بی جے پی مخالف پارٹیاں پاکستان کی حامی پارٹیاں ہیں اور بی جے پی کی شکست پاکستان کی جیت کے مترادف ہے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے معاملہ پلٹ گیا ہے اور اس نے بی جے پی کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ سینئر صحافی اجے شکلا کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’وزیر اعظم مودی جی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس جیت گئی تو پاکستان میں لڈو تقسیم کیے جائیں گے، اب عمران خان کے بیان سے لگتا ہے کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو پاکستان میں لڈو بانٹے جائیں گے۔ کیا پلوامہ میں جیش کا حملہ اس جیت کی مدد کے لیے ہوا تھا؟ کیا کوئی مجھے اس پر کچھ بتا سکتا ہے؟‘‘