1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سترہ لاکھ شامی مہاجرین کو خوراک کی فراہمی معطل

مقبول ملک2 دسمبر 2014

اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام نے شام کے ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزین 1.7 ملین شامی مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر اشیائے خوراک کی فراہمی معطل کر دی ہے۔ اس کی وجہ امدادی رقوم کی عدم دستیابی سے پیدا ہونے والا بحران بنا۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari

اطالوی دارالحکومت روم میں عالمی خوراک پروگرام WFP کے صدر دفتر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے ان لاکھوں شامی مہاجرین کو اپنی طرف سے امداد کے طور پر اشیائے خوراک کی فراہمی کل پیر کے روز سے بند کر دی ہے اور بحرانی حالات میں مجبوراﹰ کیے جانے والے اس پریشان کن فیصلے کا سبب وہ امداد دہندہ ملک اور بین الاقوامی ادارے بنے ہیں جنہوں نے مالی وسائل کی فراہمی کے وعدے تو کیے تھے لیکن یہ وعدے پورے نہیں کیے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ عالمی خوراک پروگرام کے مطابق خطے کے ملکوں اردن، لبنان، ترکی، عراق اور مصر میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کے لیے اب یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ڈونر ملکوں اور اداروں کی طرف سے فوری طور پر 64 ملین ڈالر مہیا نہ کیے گئے تو ان مہاجرین کو موجودہ سردیوں میں شدید نوعیت کے بھوک کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

فوری طور پر 64 ملین ڈالر مہیا نہ کیے گئے تو شامی مہاجرین کو موجودہ سردیوں میں شدید نوعیت کے بھوک کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گاتصویر: Getty Images/K. Cucel

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق یہ وہ رقوم ہیں جن کی اس ادارے کو ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے تاکہ ان 1.7 ملین شامی مہاجرین میں وہ فوڈ ووچر تقسیم کیے جا سکیں، جن کی مدد سے وہ کم از کم اس مہینے کے آخر تک کے لیے اپنے لیے اشیائے خوراک کا بندوبست کر سکیں۔

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لیے ہائی کمشنر انٹونیو گوٹیریش نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’یہ صورت حال اتنی بری ہے کہ اس کا اس سے زیادہ برا کوئی وقت ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ میں بین الاقوامی برادری سے ہنگامی بنیادوں پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ عالمی خوراک پروگرام کی مدد کرے اور شامی مہاجرین کو بھوکا رہنے کے لیے اکیلا نہ چھوڑے۔‘‘

ڈبلیو ایف پی نے شامی مہاجرین کے لیے امدادی اشیائے خوراک کی فراہمی کے پروگرام کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون کون سے ملک یا بین الاقوامی ادارے ہیں جنہوں نے اپنی طرف سے وعدہ کردہ رقوم مہیا نہیں کیں۔ تاہم ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں موجود جرمنی، فن لینڈ اور سویڈن کے وزرائے خارجہ نے روم میں کیے گئے اعلان کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ملک عالمی خوراک پروگرام کی فنڈنگ میں پائے جانے والے خلاء کو پر کرنے میں مدد کرتے ہوئے زیادہ امدادی رقوم فراہم کرنے پر تیار ہیں۔

عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انٹونیو گوٹیریش کے بقول امدادی خوراک کی معطلی سے سب سے زیادہ تکالیف کا سامنا شامی مہاجرین کے ان ہزار ہا خاندانوں کو کرنا پڑے گا، جو اپنے زندہ رہنے کے لیے صرف امدادی اشیائے خوراک پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

عالمی خوراک پروگرام کے مطابق وہ شام میں مسلح تنازعے کے آغاز سے اب تک گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران نہ صرف لبنان، اردن، ترکی، عراق اور مصر میں 1.7 ملین سے زائد شامی مہاجرین کو اشیائے خوراک مہیا کر رہا ہے بلکہ خود شام کے اندر داخلی مہاجرت کرنے والے لاکھوں شہری بھی اپنے زندہ رہنے کے لیے اسی ادارے کی طرف سے تقسیم کی جانے والی امدادی خوراک پر گزارہ کرتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں