ستر لاکھ روپے کا الہ دین کا چراغ، مگر اس میں جن تھا ہی نہیں
1 نومبر 2020
بھارت میں دو ملزمان نے ایک ڈاکٹر کو شیشے میں اتار کر اسے سات ملین روپے کے عوض ’الہ دین کا ایک جعلی چراغ‘ بیچ دیا۔ چراغ کا خریدار یہ معاملہ اس وقت پولیس کے پاس لے گیا، جب اس چراغ کو رگڑنے پر کوئی جن برآمد نہ ہوا۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے اتوار یکم نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان دونوں ملزمان نے شمالی ریاست اتر پردیش میں بظاہر ایک سادہ لوح ڈاکٹر کو 93 ہزار امریکی ڈالر کے برابر قیمت کے عوض الہ دین کا جو چراغ بیچا، اس کے اصلی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے خریدار کو ایک ایسا مبینہ جن بھی دکھایا تھا جو، ملزمان کے دعووں کے مطابق، اس چراغ کو رگڑنے سے اس میں سے نکلا تھا اور جو اس جادوئی چراغ کے مالک کی ہر خواہش پوری کر سکتا تھا۔
سائنس دانوں نے دنیا کو کئی عظیم ایجادات فراہم کیں لیکن کئی نامور موجد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی ایجاد کردہ چیزوں کے غلط استعمال کے باعث انہیں بنانے پر شدید افسوس کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive
رابرٹ اوپن ہائیمر / البرٹ آئن سٹائن
رابرٹ اوپن ہائیمر دوسری عالمی جنگ کے دوران مین ہیٹن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر تھے اور یہیں جوہری بم بنانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اوپن ہائیمر اور آئن اسٹائن کے باعث ہی جوہری تجربہ کامیاب رہا تھا۔ بعد ازاں دونوں نے جوہری بم کی ایجاد پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اوپن ہائیمر نے بھگوت گیتا سے لیا گیا ایک جملہ کہا، ’’اب میں موت بن گیا ہوں، دنیا تباہ کرنے والا۔‘
تصویر: picture-alliance/dpa/US Department of Energy
میخائیل کلاشنکوف
اے کے 47 یا کلاشنکوف کو دنیا میں کون نہیں جانتا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اسے سوویت انجینیئر میخائیل کلاشنکوف نے تیار کیا تھا۔ انہوں نے بھی اپنی طویل زندگی میں کئی مرتبہ اپنی ایجاد پر افسوس کا اظہار کیا۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ’روحانی دکھ ناقابل برداشت ہے‘۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Thomas
الفریڈ نوبل
نوبل امن انعام شروع کرنے والے الفریڈ نوبل نے دراصل سن 1860 کی دہائی میں ڈائنامائیٹ ایجاد کی تھی۔ ان کے بھائی کی وفات پر اخبار نے غلطی سے ان کی موت کی خبر شائع کر دی اور عنوان رکھا ’موت کے تاجر کی موت‘۔ نوبل اخبار میں اپنی موت کی خبر سے زیادہ یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ کیا انہیں یوں یاد کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی انہوں نے امن کا نوبل انعام شروع کیا۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive
رائٹ برادران
جہاز بنانے والے رائٹ برادران کو کون نہیں جانتا۔ ولبر رائٹ اور اورول رائٹ نے اپنی عمر جہاز بنانے میں صرف کر دی اور آخر انسان کے لیے پرواز کا خواب بھی پورا کر لیا۔ انہوں نے ہوائی جہاز امریکی فوج کو فروخت کیا لیکن پہلی عالمی جنگ میں اپنی ایجاد کی پیدا کردہ تباہی دیکھ کر اورول رائٹ نے بھی دکھ کا اظہار کیا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
کیمران لوگمان
لوگمان سن اسی کی دہائی میں ایف بی آئی کے لیے کام کر رہے تھے اور وہیں انہوں نے پیپر اسپرے کو بطور ہتھیار استعمال کرنے میں معاونت کی۔ انہوں نے پولیس کے لیے پیپر اسپرے استعمال کرنے کا ہدایت نامہ بھی لکھا۔ پیپر اسپرے اب دنیا کے کئی ممالک کی پولیس استعمال کرتی ہے لیکن لوگمان کئی مرتبہ اس کیمیائی مادے کے ’غیر مناسب‘ استعمال پر دکھ کا اظہار کر چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Bettcher
5 تصاویر1 | 5
چراغ میں کوئی جن ہوتا تو نکلتا
اس نام نہاد جادوئی چراغ کا نیا مالک اس وقت بہت پریشان ہوا، جب اس نے اس پرانے سے دھاتی چراغ کو رگڑا تو بہت مگر اس میں سے کوئی جن اس لیے برآمد نہ ہوا کہ اس میں کچھ تھا ہی نہیں۔
اس پر اس بھارتی مسلم ڈاکٹر نے، جس کا نام لئیق خان بتایا گیا ہے، پولیس سے رابطہ کیا تو چند روزہ تفتیش کے بعد پولیس نے چراغ بیچنے والے دونوں دھوکے بازوں کو گرفتار کر لیا۔
اس بارے میں اتر پردیش پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار امیت رائے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ان دونوں ملزمان نے اس ڈاکٹر کو یہ جادو کا چراغ بہت زیادہ قیمت پر فروخت کرنا چاہا تھا، مگر بالآخر سودا تقریباﹰ سات ملین روپے میں طے پا گیا تھا۔‘‘
ایک ملزم کی بیوی بھی دھوکا دہی میں ملوث
امیت رائے نے بتایا کہ دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور وہ اس وقت پولیس کی تفتیشی تحویل میں ہیں۔ ان ملزمان نے ڈاکٹر لئیق خان کو یہ چراغ ایک ملزم کی بیوی کی عملی مدد سے بیچا تھا، جس نے شاید خریدار کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ 70 لاکھ روپے کے عوض بس جادو کا یہ چراغ خرید ہی لے۔ یہ خاتون ابھی تک مفرور ہے لیکن پولیس اس کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق لئیق خان نے پولیس کو رپورٹ گزشتہ اتوار کے روز درج کرائی تھی اور دونوں ملزمان کو جعمرات کے روز گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان میں سے جس ملزم نے 'الہ دین کے لیمپ‘ کے خریدار کو بظاہر اسی چراغ سے نکلا ہوا ایک جن دکھایا تھا، جو خود کو مافوق الفطرت صلاحیتوں کا مالک قرار دے رہا تھا۔
انڈوں سے جڑی حیران کن باتیں
ایسٹر کے موقع پر عموماﹰ مرغی کے انڈوں کا خیال آتا ہے، مگر پرندوں سمیت جانوروں کی بہت سی انواع انڈے دیتی ہیں، جن میں بڑے بڑے پرندوں سے لے کر چھپکلیاں تک شامل ہیں۔ آئیے انڈوں کے حیرت کدے میں اتریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Peter Byrne
ایک انڈہ، دو کام
مرغی کے انڈے کے چھلکے کا نینواسٹرکچر ارتقائی عمل کا شاندار نمونہ ہے۔ یہ چھلکا ابتدائی دنوں میں مضبوط ہوتا ہے، مگر بریڈنگ کے اختتام کے وقت بہت پتلا ہو چکا ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ مسلسل عمل ہے۔ یہ چھلکا فقط چوزے کی محفوظ پیدائش گاہ ہی نہیں بلکہ اس کا اندرونی خول چوزے کا ڈھانچا بناتا ہے جب کہ کیلشیم کی اندرونی تہہ ان کی ہڈیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
انڈے میں بریڈنگ کا گولڈ میڈل
شتر مرغ زمین پر سب سے بڑا اور سب سے تیز رفتار دوڑنے والا پرندہ ہے۔ اس گھونسلے میں دیگر چار مادائیں بھی اپنے انڈے رکھ دیتی ہیں۔ ان میں سے غالب مادہ ایک نر کے ساتھ یہ انڈے سیتی ہے۔ اس گھونسلے میں مجموعی طور پر قریب پندرہ انڈے ہوتے ہیں۔ کمزور انڈوں کو مادہ شتر مرغ خود ہی ضائع کر دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Wittek
ممتا کا بھاری بوجھ
کیوی کی پہچان اس کا پرواز سے عاری ہونا ہے، مگر وہ خود ایک پورے ملک (نیوزی لینڈ) کی پہچان ہے۔ جسامت کے تناسب سے اس کا انڈہ سب سے بھاری ہوتا ہے، جو قریب نصف کلو کا ہوتا ہے۔ یہ انڈہ مادہ کیوی کے قریب تمام جسم پر قابض ہوتا ہے، حتیٰ کہ یہ مادہ نہ ٹھیک سے چل سکتی ہے اور نہ سکون سے سانس لے سکتی ہے۔ نوزائیدہ بچہ تاہم زیادہ دیر ماں پر منحصر نہیں ہوتا۔
پینگوئن اپنی نسل کی افزائش ہر جگہ نہیں کرتے۔ وہ اس کے لیے تقریباً پچاس سے ایک سو بیس کلو میٹر کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ مادہ پینگوئن ایک سال میں ایک انڈہ دیتی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ایک بہت اہم واقعہ ہوتا ہے۔ آسکر انعام یافتہ ڈاکیومنٹری ’مارچ آف دا پینگوئن‘ ہمیں یہ کچھ ایسا احساس دلاتی ہے، جیسے ہم خود پینگوئن میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انڈے سے محتاط رہیں
قدیمی دور میں انتہائی بڑی جسامت کے پرندے ہوا کرتے تھے، جن کا وزن نصف ٹن اور لمبائی تین میٹر تک ہوا کرتی تھی۔ یہ پرندے چار صدیاں پہلے ناپید ہو چکے ہیں۔ ان پرندوں کا ایک انڈہ سن 2015 میں دستیاب ہوا تھا۔ یہ مرغی کے انڈے سے دو سو گنا بڑا تھا۔ کیوی نما پرندے کا استخوان اور انڈہ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
انڈے صرف پرندوں کے نہیں ہوتے
یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈے صرف پرندے ہی نہیں دیتے بلک بعض رینگنے والے جانوروں کی افزائش انڈوں سے ہوتی ہے۔ ان میں سانپ، کچھوے اور انتہائی بڑی جسامت کی چھپکلیاں بھی شامل ہیں۔ عمومی طور پر سانپ انڈے دے کر کہیں اور چلا جاتا ہے اور انڈوں سے سانپ کے بچے وقت گزرنے کے ساتھ نکلتے ہیں۔ ازگر سانپ تاہم انڈوں سے بچے نکلنے تک وہیں موجود رہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انڈے دینے میں کچھووں کی مشکلات
سمندری کچھووں کو حالیہ برسوں میں انڈے دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے علاوہ ان انڈوں کی غیر قانونی تجارت اور سیاحت نے اس سمندری حیات کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ انڈے دینے ساحلوں پر جاتے ہیں لیکن لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر یہ کچھوے انڈے دیے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں۔
تصویر: Turtle SOS Cabo Verde
انڈے اٹھائے پھرنا
مینڈک کی ایک قسم مڈوائف ٹوڈ ہے۔ یہ مینڈک افزائش کے دور میں دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ مادہ نہں بلکہ نر زرد رنگت کے انڈے اپنی پشت کے پچھلے حصے پر اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ تیس دن مسلسل اٹھائے رکھنے کے بعد انڈوں سے اگلی نسل باہر آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ L. Webbink
کوئی دلچسپ نہیں
ڈائنوسارز کے دور میں شاید کوموڈو ڈریگن بہت چھوٹا ہوتا ہو، مگر اس وقت یہ سب سے بڑی چھپکلی ہے۔ نر اور مادہ کا ملاپ وصال کی تمام تر کہانیوں کا رد ہے، کیوں کہ نر ایک پرتشدد لڑائی لڑتے ہیں اور جیتنے والا مزاحمت کرتی مادہ پر چھلانگ لگا دیتا ہے۔ یہ تمام سخت گیر کہانی ایک طرف مگر انک بچے نہایت پیارے ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Peter Byrne
9 تصاویر1 | 9
'چھونے سے جن کو نقصان پہنچے گا‘
مدعی کی طرف سے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق دونوں ملزمان سے یہ چراغ خریدنے سے قبل اس نے ان سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ جن کو چھونا چاہتا تھا اور چراغ کو تجرباتی طور پر اپنے ساتھ گھر بھی لے جانا چاہتا ہے۔
تاہم ملزمان نے یہ کہہ کر ڈاکٹر لئیق خان کی یہ خواہش مسترد کر دی تھی کہ خریدے جانے سے قبل 'جن کو چھونے یا چراغ گھر لے جانے سے چراغ اور جن دونوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا‘۔ لئیق خان کے مطابق، ''مجھے بعد میں احساس ہوا تھا کہ خریدے جانے سے قبل مجھے چراغ سے نکلا ہوا جو 'جن‘ دکھایا گیا تھا، وہ دراصل دونوں ملزمان میں سے ایک تھا، جس نے جن کا روپ دھار رکھا تھا اور اسی لیے مجھے اسے چھونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘
اشتہار
ایسے چراغ متعدد خاندانوں کو بیچے گئے
اتر پردیش پولیس کے مطابق یہ دونوں ملزمان اس واقعے سے پہلے بھی بھارت کی اسی ریاست میں چند دیگر خاندانوں کو بھی بے وقوف بنا کر بہت بڑی بڑی رقوم بٹور چکے تھے۔ ملزمان نے ہر بار کسی نہ کسی پرانے سے دھاتی لیمپ کو الہ دین کا وہ طلسماتی چراغ بنا کر بیچا جو، ماضی کے من گھڑت لیکن عوامی سطح پر پسند کیے جانے والے قصے کہانیوں کے مطابق، اپنے اندر سے نکلنے والے 'جن‘ کی مدد سے اپنے مالک کی صحت اور دولت جیسے شعبوں سمیت ہر قسم کی خواہشیں پوری کر سکتا تھا۔
م م / ع س (اے ایف پی)
’گھوسٹ شپس،‘ کہانیاں اور حقیقت
اسی ہفتے ایک لاوارث بحری جہاز آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ لیجنڈ بحری جہاز ’فلائنگ ڈچ مین‘ سے لے کر جاپانی ساحلوں پر لاپتہ ہونے والی شمالی کوریائی کشتیوں تک، گھوسٹ شپس کا داستانوں اور حقیقت دونوں میں ہی ذکر ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Dietmar Hasenpusch
ایم وی آلٹا
ایم وی آلٹا نامی یہ بحری جہاز اسی ہفتے آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ یہ جہاز سن 2018 میں خراب ہو گیا تھا اور اس کے عملے نے اسے سمندر میں لاوارث چھوڑ دیا تھا۔ یہ لاوارث بحری جہاز ایک سال سے بھی زائد عرصے تک بحر اوقیانوس میں ہزارہا میل کا سفر کرتا ہوا آخر آئرلینڈ کے ایک ساحل تک پہنچا۔
تصویر: AFP/Irish Coast Guard
فلائنگ ڈچ مین
کیپٹن ہینڈرک فان ڈیر ڈیکن کا ذکر افسانوں میں ملتا ہے اور انہیں ڈچ مین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے1641ء میں ایمسٹرڈم سے ایسٹ انڈیز کا سفر شروع کیا تھا اور اس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں لوٹے تھے۔ کہانی کے مطابق ان کا جہاز ہمیشہ کے لیے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے ڈوب گیا تھا۔ فلائنگ ڈچ مین کو توہم پرست جہاز راں مستقبل کی مشکلات کی ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Photo12/Fine Art Photographs
شمالی کوریا کی کشتیاں
جاپان نے حالیہ برسوں میں اپنے ساحلوں سے لاوارث جہازوں اور کشتیوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا۔ ان میں سے زیادہ تر بحری جہاز شمالی کوریا سے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ میں تو عملے کے افراد زندہ حالت میں بھی ملے جبکہ زیادہ تر لاشیں موجود تھیں۔ کچھ پر شبہ تھا کہ وہ شاید شمالی کوریا سے فرار ہو کر جاپانی پانیوں میں پہنچے تھے۔ دیگر کے بارے میں سوچا گیا کہ شاید وہ مچھیرے تھے، جو سمندر میں بہت آگے تک نکل گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/H. Asakawa
ریئون ان مارو
امریکی ساحلی محافظین نے جاپانی لاوارث جہاز ’ریئون ان مارو‘ کو اپریل 2012ء میں الاسکا کے ساحلوں کے قریب تباہ کر دیا تھا۔ یہ جہاز 2011ء میں جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد لہروں کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ جہاز ایک سال تک بحرالکاہل میں بھٹکتا رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U.S. Coast Guard
سمندر میں لاپتہ
نینا نامی بادبانی کشتی کی لمبائی پندرہ میٹر کے لگ بھگ تھی۔ یہ کشتی 2013ء میں نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا کے سفر کے دوران بحر تسمان میں اچانک غائب ہو گئی تھی۔ اس پر کشتی کے مالک ڈیوڈ ڈائچ، ان کی اہلیہ، ان کا ایک بیٹا اور عملے کے چار ارکان سوار تھے۔ یہ ڈیوڈ کی والدہ کیرل ڈائچ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی بادبانی کشتی کی ایک تصویر کے ساتھ بیٹھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Zuma Press
سیم رتولنگی پی بی سولہ سو
انڈونیشیا کا جہاز ’سیم رتولنگی سولہ سو‘ اگست 2018ء میں پرسرار طور پر میانمار کے شہر ینگون کے ساحلی علاقے سے ملا تھا۔ میانمار کی نیوی کے مطابق 177 میٹر طویل اس مال بردار جہاز کو کسی کشتی کی مدد سے بنگلہ دیش میں کسی شپ بریکنگ یارڈ تک پہنچایا جا رہا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے وہ تاریں ٹوٹ گئیں، جن کی مدد سے اسے کھینچا جا رہا تھا۔ اس موقع پر تیرہ رکنی انڈونیشی عملے نے اسے لاوارث چھوڑ دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y.A. Thu
ایس وی لوبوو اورلووا
ایک سو میٹر لمبے اس جہاز لوبوو اورلووا کو سابق یوگوسلاویہ میں بنایا گیا تھا۔ اس کا نام سابق سوویت یونین کی ایک اداکارہ کے نام پر رکھا گیا۔ 2010ء میں اس جہاز کو شمالی امریکا کے جزیرے نیو فاؤنڈلینڈ سے کھینچ کر جزائر ڈومینیک کی جانب لایا جا رہا تھا۔ اسی دوران تاریں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد عملے نے اسے ایک دن کے لیے وہیں چھوڑ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گیا تھا۔