ستمبر کا صدارتی انتخاب نہیں لڑوں گا، حسنی مبارک
2 فروری 2011مظاہرین نے صدر مبارک کی یقین دہانیوں کو مسترد کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ دارالحکومت قاہرہ کے التحریر چوک پر کرفیو کے باوجود مسلسل آٹھویں دن بھی ہزاروں مظاہرین کا مجمع موجود ہے۔
گزشتہ شب قوم سے نشریاتی خطاب میں صدر مبارک کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار کی منتقلی کے موقع پر بھی سربراہ حکومت رہیں گے،’ میں ایمانداری سے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں، موجودہ صورتحال کو زیر غور لائے بغیر ہی میں یہ طے کرچکا تھا کہ میں ستمبر کے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لوں گا۔‘
مصری صدر نے کہا کہ انہوں نے کافی عرصے تک مصر اور اس کے عوام کی خدمت کی ہے۔ 82 سالہ صدر مبارک گزشتہ تین دہائیوں سے مصر کے صدر ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا، ’میں اس ملک میں رہا، اس کی خاطر جنگ لڑی، میں نے مصر کا دفاع کیا، یہی پر مروں گا اور تاریخ اس بات کی گواہ رہے گی۔‘
صدر مبارک نے مصری عوام کو خبردار کیا کہ وہ خود اپنے ملک میں استحکام یا انتشار کا انتخاب کریں۔ خیال رہے کہ سب سے زیادہ آبادی والی اس عرب ریاست میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران لگ بھگ تین سو ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہے اور ملک کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کا شکار ہوچکا ہے۔ صدر مبارک کا کہنا تھا کہ اقتدار کے پر امن انتقال کے لیے سلامتی کی صورتحال کو بہتر کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے آئین میں مصری سربراہ مملکت کی مدت حکمرانی میں کمی کا بھی وعدہ کیا۔
مصری اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ جب تک مبارک اقتدار سے علیحدہ نہیں ہوجاتے وہ اقتدار کے انتقال سے متعلق مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اپوزیشن میں کالعدم اخوان المسلمون اور بین الاقوامی جوہری توانائی کے ادارے کے سابق مصری سربراہ مصطفیٰ البرادعی نمایاں قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
البرادعی نے مصری صدر کے حالیہ خطاب کو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ