سحرِ مسلسل کی ڈیڑھ صدی: جرمنی کا مشہور نوئے شوان شٹائن قلعہ
5 ستمبر 2019
جرمن صوے باویریا میں انتہائی مشہور نوئے شوان شٹائن قلعہ دیکھ کر کسی بھی انسان کا تخیل پرواز کرنے لگتا ہے۔ آج پانچ ستمبر کو جرمنی کے اس انتہائی معروف قلعے کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی ٹھیک ڈیڑھ صدی پوری ہو گئی ہے۔
اشتہار
آج جمعرات پانچ ستمبر کو ہی اس قلعے کی نسبت سے ایک اور اہم پیش رفت بھی ہوئی۔ وہ یہ کہ جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے کے ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم کو ٹھیک 150 برس پہلے کے اس پتھر کا پتہ بھی چل گیا ہے، جو طویل عرصہ پہلے لاپتہ ہو گیا تھا اور جس کے ساتھ اس قلعے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گا تھا۔
نوئے شوان شٹائن قلعے کی تعمیر کا آغاز آج سے ٹھیک ڈیڑھ صدی قبل اس وقت ہوا تھا، جب پانچ ستمبر 1869ء کو اس دور کے باویرین بادشاہ لُڈوِگ دوئم نے اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
یہ منصوبہ اس دور کا مہنگا ترین تعمیراتی منصوبہ تھا۔ اسی یادگاری موقع پر بی کے اے کے ماہرین نے ایک گم شدہ حقیقت سے پردہ بھی اٹھا دیا ہے۔
ان ماہرین نے کہا ہے اس قلعے کا سنگ بنیاد، جس کا طویل عرصے سے کسی کو علم ہی نہیں تھا، اب اس کا پتہ چلا لیا گیا ہے۔
یہ سنگ بنیاد اسی قلعے کے ایک کونے کی جنوبی دیوار کا حصہ ہے اور اسی دور کی ایک پختہ اینٹ پر تو اس کی تاریخ بنیاد بھی لکھی ہوئی ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی سنگ بنیاد کے پاس سے پتھر اور دھات کے بنے ایک صندوقچے میں سے اب تک بالکل محفوظ حالت میں ان ماہرین کو نہ صرف اس قلعے کا اصلی تعمیراتی نقشہ ملا ہے بلکہ اس کے ساتھ بادشاہ لُڈوِگ دوئم کی کسی مصور کی طرف سے بنائی گئی ایک تصویر بھی تھی۔
قلعے کی انفرادیت
نوئے شوان شٹائن قلعے کی ایک بہت منفرد بات یہ بھی ہے کہ یہ جرمنی کے انتہائی خوبصورت محلات اور قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔
یورپ کے دس خوبصورت ترین محلات
دنیا بھر سے ہر سال کروڑوں سیاح یورپ کے وہ انتہائی خوبصورت محل دیکھنے آتے ہیں، جو اپنے دور کے طرز تعمیر کے نمائندہ اور یورپی تاریخ کی اہم علامات ہیں۔ ان محلات میں سیاحوں کو وہاں کا ماضی پوری شان و شوکت سے دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/W. Thieme
فرانس کا ویرسائیے پیلس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں تعمیر کردہ ویرسائیے پیلس اپنے اٹھارہ سو کمروں کی وجہ سے یورپ کے سب سے بڑے محلات میں سے ایک ہے۔ اس محل کو فرانسیسی بادشاہ لُوئی چہاردہم نے 1677ء میں اپنی شاہی رہائش گاہ بنایا تھا۔ فرانس کے اس محل کو یورپ کے بہت سے بادشاہوں نے اپنے محلات کی تعمیر کے لیے مثالی نمونہ سمجھا۔
تصویر: picture-alliance/ZB/A. Engelhardt
روس کا پیٹرہوف پیلس
روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے مغرب کی طرف تعمیر کیے گئے اس شاندار محل کو ’روس کا ویرسائیے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ خلیج فن لینڈ کے کنارے تعمیر کردہ اس محل کا افتتاح 1723ء میں ہوا تھا اور یہ روسی زار پیٹر اول کی گرمائی رہائش گاہ تھا۔ یہ محل اپنی متاثر کن آبی رہداریوں کی وجہ سے خصوصی شہرت رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/A. Engelhardt
ترکی کا توپکاپی پیلس
استنبول کا توپکاپی پیلس پندرہویں صدی کے وسط سے وسیع تر سلطنت عثمانیہ کی طاقت کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ محل، جو ایک شاہی تعمیراتی کمپلیکس ہے، چار بڑے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ وہاں ایک وقت میں پانچ ہزار تک افراد رہتے اور کام کرتے تھے، ایسے ہی جیسے ایک چھوٹا سا ’شاہی شہر‘۔
تصویر: picture-alliance/ZB/B. Settnik
برطانیہ کا ونڈسر کاسل
یہ برطانوی محل دنیا کی وہ قدیم ترین رہائش گاہ ہے جو مسلسل کسی شاہی خاندان کے زیر استعمال ہے۔ اس محل کی بنیاد 1078ء میں رکھی گئی تھی۔ ونڈسر کاسل فوجی دستوں کی قیام گاہ اور ایک جیل بھی رہا ہے۔ آج یہ محل برطانوی ملکہ کی مرکزی رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ جب ملکہ محل میں موجود ہوتی ہیں، تو گول مینار پر ان کا پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Gerig
آسٹریا کا شوئن برُن پیلس
آسٹریا کی ملکہ ماریا ٹیریسا نے ویانا میں تعمیر کردہ شوئن برُن پیلس کو آج سے قریب تین صدی قبل یورپی شاہی خاندانوں کی زندگی کا محور بنا دیا تھا۔ یہ محل آسٹرو ہنگیریئن بادشاہت کے دور عروج کی سب سے شاندار نشانی ہے۔ اس محل کو دیکھنے کے لیے ہر سال دنیا بھر سے قریب تین ملین سیاح ویانا کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/W. Grubitzsch
اسپین کا ’ایل ایسکورئیال‘
ہسپانوی باشندے اس محل کو بڑے شوق سے ’دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘ قرار دیتے ہیں۔207 میٹر طویل اور 161میٹر چوڑا یہ محل دنیا بھر میں نشاة ثانیہ کے طرز تعمیر کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ میڈرڈ کے نواح میں اس محل کی حدود میں ایک کلیسا اور اس سے متصل راہب خانہ بھی ہے۔ کلیسا کے تہہ خانے میں ماضی کے تقریباﹰ تمام ہسپانوی بادشاہ دفن ہیں۔
تصویر: picture alliance/Prisma Archivo
چیک جمہوریہ کا فراؤاَین برگ پیلس
بوہیمیا میں شوارزن برگ کے نواب کی یہ سابق رہائش گاہ چیک جمہوریہ کے سب سے مشہور اور پسندیدہ ترین محلات میں شمار ہوتی ہے۔ اس محل کی سب سے خاص بات بیلجیم میں بنائے گئے اور دیواروں پر چسپاں وہ رنگا رنگ موٹے کاغذ ہیں جو سترہویں صدی میں محل کی دیواروں کی اندرونی تزئین کے لیے تیار کیے گئے تھے اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کے حامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Matheisl
جرمنی کا نوئے شوان شٹائن پیلس
باویریا کے بادشاہ لُڈوِگ دوئم کی خواہش تھی کہ شاہسواروں کے لیے ایک ایسا قلعہ تعمیر کیا جائے جو قرون وسطٰی کے طرز تعمیر کا نمونہ ہو۔ 1886ء میں اس محل کے افتتاح کے وقت تک اس بادشاہ کا تو انتقال ہو چکا تھا لیکن یہ دیومالائی محل آج بھی سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کا حامل ہے۔ لُڈوِگ دوئم فن تعمیرات میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور یہ محل تھیورنگیا میں وارٹبُرگ سے متاثر ہو کر تعمیر کروایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ZB/F. Baumgart
اٹلی کا ڈوگن پیلس
ڈوگے وینس کی تاریخی جمہوریہ کا ریاستی سربراہ تھا۔ ڈوگے کی یہ متاثر کن رہائش گاہ اس دور میں وینس کی سمندری اور تجارتی طاقت کی علامت تھی۔ وینس میں گوتھک طرز تعمیر کا یہ محل اب تک کئی مرتبہ جل چکا ہے، لیکن ہر بار اس کی تعمیر و مرمت کر دی گئی۔ اب یہ محل ایک عجائب گھر میں بدلا جا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb/M. Schrader
پرتگال کا پینا نیشنل پیلس
فن تعمیرات کے ماہرین کی رائے میں یہ محل کئی مختلف طرز ہائے تعمیر کی آمیزش کا نتیجہ ہے۔ کئی شائقین تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ محل انہیں ڈزنی لینڈ کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن سِنترا کے شہر میں قائم یہ محل سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ چودہویں صدی سے یہ محل پرتگال کے بادشاہوں کی گرمائی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Read
10 تصاویر1 | 10
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوبی جرمن صوبے باویریا میں تو اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی قلعہ یا محل موجود ہی نہیں۔
باویریا کے بادشاہ لُڈوِگ دوئم کے لیے اس قلعے کی کشش اتنی زیادہ تھی کہ وہ اپنی معمول کی شاہی مصروفیات سے دور جب تخلیے کے خواہش مند ہوتے تھے اور اپنے خوابوں کی دنیاؤں میں سفر کرنا چاہتے تھے تو اسی قلعے میں قیام کیا کرتے تھے۔
چھ کروڑ سیربین
جرمنی کا یہ قلعہ اتنا مشہور ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے آج تک 60 ملین یا چھ کروڑ سے زائد شائقین وہاں جا چکے ہیں۔
آج کل اس قلعے کو اس کی اصلی حالت میں رکھنے کے لیے ماہرین کی طرف سے تزئین و مرمت کا کام بھی جاری ہے، جو 2022ء میں مکمل ہو گا۔
اس قلعے کو شاہی خاندان سے باہر کے افراد، عام شائقین اور مہمانوں کے لیے 130 برس قبل کھولا گیا تھا۔
یہ جرمنی میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں میں مقبول ان قابل دید مقامات میں بھی بہت آگے ہے، جن کی ہر سال سب سے زیادہ تصویریں بنائی جاتی ہیں۔ اپنے پس منظر، قدرتی حسن، ارد گرد کے ماحول، طرز تعمیر اور مجموعی خوبصورتی کی وجہ سے یہ قلعہ دیکھنے میں بھی ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی سچ مچ کا تعمیراتی شاہکار نہ ہو بلکہ پریوں کی کسی دیومالائی کہانی کا اچانک سامنے آ جانے والا حصہ ہو، جو دیکھنے والے کو اپنے جادو کی گرفت میں لے لیتا ہو۔
مقبول ملک (فریڈیریکے میولر)
یورپ کے پرشکوہ قلعے اور محلات
قرون وسطیٰ کے دور میں مختلف یورپی شہر قلعہ بند ہوتے تھے۔ شہروں کے گرد بہنے والے دریاؤں کے پل علیحدہ کیے جا سکتے تھے اور شہروں کے گردا گرد بلند دیواریں بھی تعمیر کی جاتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M.Cardy
برطانوی ٹِن ٹاگل کا قلعہ
کسی دور کے اِس عظیم الشان قلعے کی وسیع عمارت کی بہت زیادہ باقیات اب موجود نہیں ہیں۔ برطانوی ساحلی علاقے کورنوال کی ساحل پر اِس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اس قلعے کی باقیات کو دیکھنے کا بہترین وقت طلوع آفتاب یا غروب آفتاب بیان کیا جاتا ہے کیونکہ ان اوقات میں سمندری ہوا قلعے کھنڈر سے سیٹیاں بجاتی گزرتی ہے۔ اس قلعے کی تعمیر برطانوہی بادشاہ آرتھر کی سوچ کا نتیجہ تھی۔
تصویر: picture alliance/A.Woolfitt
برطانیہ کے شہر لندن کا ٹاور
یہ قلعہ عام طور پر لندن ٹاور کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس قلعے کی مختلف ادوار میں مختلف شناختیں رہی ہیں۔ کبھی یہ شاہی محل بنا تو کبھی اسلحے کا گودام بنا دیا گیا۔ کبھی جنگی جانوروں کا ٹھکانہ بنایا گیا تو کبھی قید خانے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ یہ تقریباً ایک ہزار برس قبل تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
اٹلی کا مقدس فرشتے کا محل
یہ قلعہ پوپ کلیمنٹ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ روم سے فرار ہو کر سن 1527 میں اس قلعے میں پناہ گزین ہوئے تھے کیونکہ مقدس رومی سطنت کے فوجیوں نے روم شہر کو تاراج کر دیا تھا۔ اس قلعے کی باقیات آج بھی دریائے ٹیبر کے کنارے واقع ہیں۔ اس کی تعمیر کی وجہ یہ ہے کہ یہ رومی سلطنت کے بادشاہ ہاڈریان کے مزار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ہاڈریان 138عیسوی میں فوت ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M.Laporta
رومانیہ کا قلعہ نما والیا ویلور چرچ
یہ انتہائی محفوظ در و دیوار کا حامل گرجا گھر چودہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اب یہ یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کیا جا چکا ہے۔ برس ہا برس تک حملہ آوروں کی چڑھائی کے دوران قریبی لوگ اس قلعہ نما گرجا گھر میں پناہ لیا کرتے تھے۔ اس کی عمارت پتھروں سے تعمیر شدہ ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
فرانس کا قلعہ فلیکنسٹائن
شمال مشرقی فرانسیسی علاقے السیس کے فلیکنسٹائن خاندان کا یہ قدیمی خاندانی قلعہ ہے۔ یہ جرمنی کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ قرون وسطییٰ میں اس قلعے کو ایک پتھریلی چٹان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے سے قریبی علاقے کا پرلطف نظارہ دیکھنے والے کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Dumont
چیک جمہوریہ کا لوکیٹ قلعہ
لیجنڈری جرمن شاعر ژوہان وولفگانگ فان گوئٹے اس قلعے کو کم از کم کا دس مرتبہ دیکھنے گئے تھے۔ 28 اگست سن 1823 کو اپنی چوہترویں سالگرہ بھی اسے پروقار قلعے میں منائی تھی۔ اس سالگرہ کی تقریب میں اُلریکے نامی نوجوان عورت اور اُس کا خاندان بھی شامل تھا، جس سے ژوہان وولفگانگ فان گوئٹے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اُلریکے نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس محبت پر اُن کی لکھی ہوئی نظم Marienbad Elegy ایک شاہکار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
جرمنی کا ایلٹس محل
ایلٹس قلعے کی ابتدائی تعمیر نویں صدی کی ہے۔ ستر میٹر بلند چٹان پر اس قلعے کی تعمیر کی گئی۔ یہ دریائے موسل کے کنارے پر واقع ہے۔ اس قلعے کی ملکیت ایلٹس خاندان کے پلس ہے اس قلعے کا طرز تعمیر انتہائی پروقار ہے۔
تصویر: picture alliance/M. Norz
بُرگ ہاؤزن قلعہ، جرمنی
جرمن علاقے باویریا کے جنوبی کنارے پر واقع یہ قلعہ ایک ہزار میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ دنیا میں اتنے بڑے علاقے پر پھیلا ہوا سب سے بڑا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر بارہویں صدی میں کی گئی تھی۔ اس پر برسوں وٹلز باخ خاندان کا کنٹرول رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
پولینڈ کا واویل محل
واویل محل پولینڈ کے شہر کاراکاؤ کے قریب سے گزرنے والے دریا وسٹولا کے کنارے پر واقع ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ کاراکاؤ برسوں پولستانی بادشاہت کا صدرمقام رہا تھا۔ اس قلعے کا اولین ڈھانچہ دسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ قلعہ کو پولش تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
وارٹبرگ کاسل، جرمنی
جرمن علاقے میرزربرگ کے پادری برونو نے سن 1080 میں اس قلعے کا احوال اپنی یاداشتوں میں بیان کیا تھا۔ اسی قلعے میں سن 1521 میں مارٹن لوتھر نے پناہ لی تھی اور یہیں پر قیام کے دوران انہوں نے مقدس انجیل کا یونانی سے جرمنی زبان ترجمہ مکمل کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Chromorange/ M. Wirth
ہوہنسولرن محل، جرمنی
ہوہنسولرن قلعہ 855 میٹر کی بلندی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ سوابی الپس کی ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اس کو ہوہنسولرن خاندان کا قدیمی شاہی گھر قرار دیا جاتا تھا۔ اسی خاندان نے پرشیا پر سن 1525 سے سن 1818 تک حکومت کی تھی۔ یہ قلعہ یورپ کے پرشکوہ قلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعے میں شاہی دور کی یادگاریں خاص طور پر سیاحوں کی دلچسپی کی حامل ہیں۔