سحری کے لیے جگانے والے ڈھول کی آواز معدوم ہوتی ہوئی
2 جون 2018
پاکستان کے مختلف شہروں میں روزوں کے دوران سحری کے وقت ڈھول بجا کر اٹھانا تقریباً ایک دہائی قبل تک خاصا مقبول تھا۔ اب یہ ثقافتی روایت بتدریج معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
اشتہار
پاکستانی شہروں اور قصبوں میں رمضان کی سحریوں میں ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے والے اسے مذہبی عمل سمجھنے کے ساتھ ساتھ معاشی آسودگی کا ذریعہ بھی خیال کیا کرتے تھے۔ ایسے افراد میں زیادہ تر کا تعلق محلوں میں شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول بجانے والوں سے ہوا کرتا تھا۔ اب روایتی موسیقی دم توڑتی جا رہی ہے اور یہ لوگ بھی کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ سحری کے وقت جب یہ گلی محلوں سے گزرا کرتے تھے تو خواتین اور بچے خاص طور پر انہیں دیکھنے کے لیے کھڑکیوں اور دروازوں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ ڈھولچی رمضان کے بعد عید کے موقع پر اپنے علاقے کے گھروں پر جا کر مالی مدد کے طور پر عیدی کی صورت میں رقوم وصول کیا کرتے تھے۔
حالیہ کچھ عرصے سے سحری کے وقت لوگوں کو روزے کے لیے اٹھانے والے صدیوں پرانی روایت کے حامل ایسے ڈھولچیوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اب گلیوں اور محلوں میں ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ’’اٹھ جاؤ لوگو، سحری کھا کر روزہ رکھ لو‘‘ کی صدا کم ہی سننے میں ملتی ہے۔
ایسے ہی ڈھولچیوں میں راولپنڈی کا لال حسین بھی ہے، وہ ہر رمضان کے مہینے میں آدھی رات کے بعد ایک بجے اپنے ڈھول پر لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا کرتا تھا۔ وہ گزشتہ پینتیس برسوں سے یہ فعل ایک نیکی سمجھ کر کرتا رہا۔ خالی اور ویران گلیوں میں کئی کلومیٹر وہ اپنے ڈھول کو بجاتے ہوئے لوگوں کی توجہ روزہ رکھنے کی جانب مبذول کرایا کرتا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ سبھی ڈھولچی سحری کے وقت ڈھول پر بھنگڑے کی تھاپ کا استعمال کیا کرتے تھے۔ پاکستان کے سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ اسمارٹ فون جنریشن ایسی قدیمی روایات کے اتنے گرویدہ نہیں رہے اور نصف شب کو بستر میں دراز ہوتے وقت وہ ڈھول کی تھاپ کو نیند میں خلل بھی محسوس کرتے ہیں۔
ایسے ہی عوامل سے اس قدیمی روایت پر جدیدیت کی دھول جمنا شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان کے ثقافت کے قومی ادارے کے سابق سربراہ عکسی مفتی کا خیال ہے کہ ایسی روایات کو زندہ رکھنے کے لیے ماؤں کو اپنے تربیتی عمل میں پرانے معاشرتی طریقوں کو متعارف کرانے کے لیے اختراعات کی ضررورت ہے۔
عکسی مفتی کے مطابق ڈھولچیوں کی تعداد کم نہیں بلکہ وہ ناپید ہونے لگے ہیں۔ راولپنڈی شہرکے لال حسین کا بھی خیال ہے کہ ہر سال سحری میں ڈھولچی کم ہو رہے ہیں کیونکہ اُن کی پذیرائی کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
پشاور میں سکھوں کا افطاری کیمپ
صوبہ خیبر پختونخوا کی سکھ کمیونٹی ماہ رمضان میں مسلمان روزہ داروں کے لیے متعدد افطاری کیمپوں کا اہتمام کرتی ہے۔ آپ کو سیر کراتے ہیں، ان میں سے ایک ایسے کیمپ کی جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے قریب ہی لگایا گیا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
تیمار دار، روزہ داروں کی خدمت
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں سکھ برادری اس برس بھی پشاور کے مختلف علاقوں میں افطاری کے لیے باقاعدہ کیمپ لگا رہی ہے۔ سب سے زیادہ رش لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں لگائے گئے ایک کیمپ میں دکھنے میں آ رہا ہے۔ اس رش کی وجہ یہ بھی ہے کہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ علاج کی غرض سے اس ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ ان کے رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
خانساماں لیکن مسلمان ہی
گورپال سنگھ کے بقول افطاری کے لیے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے پکوایا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کی شک کی گنجائش باقی نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ نیک جذبے کے تحت کیا جاتا ہے تاکہ مسافروں اور بے بس لوگوں کی مدد کی جاسکے۔
تصویر: DW/F. Khan
دستر خوان سب کے لیے
سکھ برداری رمضان میں بالخصوص لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل مریضوں کے تیمار داروں کی خدمت بھی کر رہی ہے۔ ان کے لیے افطاری کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس افطار کیمپ میں مریضوں کے رشتہ داروں کے ہسپتال ملازمین، قریبی بازار میں کام کی غرض سے آنے والے افراد اور غریب لوگ بھی افطاری کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
سماجی خدمت
سکھ برادری کے فلاحی تنظیموں سے وابستہ دانیال اور جوہیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ افطار کیمپوں کا اہتمام خالصتا ایک سماجی کام ہے، جس کے لیے کسی سے کچھ نہیں لیا جاتا بلکہ خود ہی سارا خرچہ برداشت کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر روزے رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
افطاری کے لوازمات
افطاری میں پہلے شربت، کھجور، پکوڑے، سموسے اور پھل جبکہ بعد میں کھانا دیا جاتا ہے۔ افطاری کے انتظامات کے موقع پر موجود مقامی فلاحی تنظیم سے وابستہ گورپال سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر افطاری کا انتظام کیا جا رہا ہے اور اس مہینے وہ خود بھی کھلے عام کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
نوجوان سکھ آگے آگے
سکھ برادری کے بالخصوص نوجوان اس افطار کیمپ میں روزہ داروں کی خدمت کے لیے خود کھڑے ہوتے ہیں اور افطاری کے وقت روزہ داروں کو پانی اور کھانا لاکر دیتے ہیں جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں کاروبار سے وابستہ سکھ افراد کا کہنا ہے کہ وہ رمضان کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں منافع نہیں کماتے۔