سخت ایسٹر لاک ڈاؤن: فیصلہ واپس، تنقید کے بعد میرکل کی تعریف
24 مارچ 2021
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایسٹر کے مسیحی تہوار کے دنوں میں ملک میں سخت تر لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کا اعلان پیر کو کیا تھا، جس پر خاصی تنقید سامنے آنے کے بعد انہوں نے دلی معذرت کا اظہار کیا۔
اشتہار
میرکل نے ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں کے سربراہان حکومت کے ساتھ طویل آن لائن مشاورت کے بعد بائیس مارچ کو اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ایسٹر کے مذہبی تہوار کے دنوں میں پورے ملک میں سخت تر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جائے گا۔
پہلی بار دو ریسٹ ڈے
یہ سخت تر لاک ڈاؤن یکم اپریل سے لے کر پانچ اپریل تک نافذ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان پانچ دنوں میں سے تین دن (گڈ فرائیڈے، ایسٹر سنڈے اور ایسٹر منڈے) کو پورے ملک میں ویسے ہی عام تعطیل ہوتی ہے، لیکن اس بار حکومت نے جمعرات یکم اپریل اور ہفتہ تین اپریل کو بھی ریسٹ ڈے قرار دے دیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہفتے کے دن چند گھنٹوں کے لیے صرف اشیائے خوراک کی مارکیٹیں کھلنے کے علاوہ تقریباﹰ پانچوں دن ہی جرمن معیشت اور عوامی زندگی بند ہو کر رہ جاتی۔
یہ فیصلہ معیشت کے لیے اچھا تو نہیں تھا مگر میرکل نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر جرمنی کو کووڈ انیس کی وبا کی تیسری ہلاکت خیز لہر سے بچانا ہے، تو ایسا کرنا پڑے گا۔
اس حکومتی فیصلے کے بعد انگیلا میرکل اور صوبائی حکومتی سربراہان پر عوامی اور کاروباری شعبے کی طرف سے شدید تنقید کی جانے لگی تھی کہ نیت چاہے اچھی تھی، مگر ایسا کرتے ہوئے اس عمل کے نتائج کو کافی حد تک پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ مزید یہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مشاورتی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کافی حد تک ریاستی حکومتوں پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر کس طرح عمل درآمد کرنا چاہتی تھیں۔
اقتصادی شعبہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا اور طویل لاک ڈاؤن کے باعث بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کاروباری حلقوں کو شکایت تھی کہ مسلسل پانچ دنوں تک پورے ملک کو بند رکھنے کی اقتصادی قیمت کیا ہو گی اور آیا جرمنی یہ قیمت چکانے کے لیے تیار ہے۔
فیصلے کی منسوخی اور معذرت
اس تنقید کے تناظر میں چانسلر میرکل نے بدھ کے روز اپنے ایک مختصر پیغام میں اعتراف کیا کہ ایسٹر کے دنوں میں سخت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کافی زیادہ عوامی بے یقینی کی وجہ بنا ہے، جس پر انہیں افسوس ہے اور وہ دل سے معذرت خواہ بھی ہیں۔
یورپ میں کورونا کے باعث لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ ایسے میں گرمیوں کی چھٹیاں کیسے گزاری جائیں؟ اس پکچر گیلری میں جانیے 2021ء کے موسم گرما کی چھٹیوں کے لیے آپ کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Shkullaku
بکنگ منسوخ کرنے کی سہولت
کورونا ویکسین کی دستیابی عام ہونے تک یہ بات طے ہے کہ پہلے کی طرح سفر نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن گرمیوں کی تعطیلات کے لیے اسپین اور یونان جیسے مقبول ترین یورپی سیاحتی مقامات کی پہلے سے بکنگ جاری ہیں۔ اس کی ایک وجہ ٹریول آپریٹرز کی جانب سے سفری پابندیاں جاری ہونے کی صورت میں لوگوں کو مفت میں بکنگ منسوخ کرنے کی سہولت دینا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arnold
لمبے سفر سے گُریز
جرمنی کی ٹریول ایسوسی ایشن کے مطابق اس بار میسحی تہوار ایسٹر کی تعطیلات کے دوران سیاحت کے رجحان میں کمی کا امکان ہے۔ تاہم مئی کے اواخر میں موسم گرما کے آغاز سے بکنگز کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن زیادہ تر جرمن سیاح بیرون ملک یا لمبے سفر کی بکنگ کرانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zoonar/B. Hoyen
ساحل سمندر
قوی امکان ہے کہ اس سال گرمیوں میں زیادہ تر سیاح ساحل سمندر کا رُخ کریں گے۔ خیال ہے کہ عالمی وبا کے سبب بیچز پر بھی حفاظتی ضوابط کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ اس وجہ سے بہت سے افراد ابھی اپنے سفر کے لیے حتمی بُکنگ نہیں کرا رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zimmermann
قرنطینہ کے ساتھ سیاحت
بہت سارے لوگوں کے لیے ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا اس سال موسم گرما میں بین الاقوامی سفر کرنے کی اجازت ہوگی بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوگی تو کن شرائط پر؟ اس کا انحصار مختلف ملک میں کووڈ انیس کے مریضوں کی تعداد پر ہوگا۔ اسی طرح مقامی سطح پر ویکسین کی دستیابی اور سفر سے واپسی پر قرنطینہ سے متعلق قواعد کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
ایک سروے کے مطابق سفری پابندیوں کے نتیجے میں اس مرتبہ موسم گرما کے دوران سیاحوں کی بڑی تعداد بین الاقوامی سفر کے بجائے اپنے ہی ملک میں سیاحتی مقامات پر تعطیلات گزارنے کو ترجیح دے گی۔ جرمنی میں تعطیلات گزارنے کے لیے تقریباﹰ ساٹھ فیصد گھر پہلے ہی بُک ہوچکے ہیں۔
تصویر: Colourbox
قدرت کے نزدیک
لندن، پیرس، برلن ہو یا نیویارک، دنیا بھر کے سیاح عام طور پر بڑے شہروں کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عالمی وبا کے بعد سن 2020 کے موسم گرما میں پہاڑی اور دیہی علاقہ جات میں سیاحوں کی بڑی دلچسپی دیکھی گئی۔ یورپ میں اس سال موسم گرما میں کوشش کی جا رہی ہے کہ موسم گرما میں سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی تعداد محدود رکھی جائے۔
تصویر: NDR
ماحول دوست سیاحت
ہائکنگ، بائکنگ یا پھر کیمپنگ؟ آج کل ماحول سیاحت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، پھر چاہے آپ کی منزل کہیں بھی ہو۔ نوجوان سیاحوں کی بڑی تعداد عالیشان اور مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے بجائے تعطیلات کے دوران رہائش کے لیے چھوٹے گھر اور کیمپنگ سائٹس کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ساتھ ہی میرکل نے کہا کہ وہ یہ فیصلہ واپس لیتی ہیں اور اب یکم سے پانچ اپریل تک ایسٹر کی تین قانونی عام تعطیلات کے سوا کوئی 'ریسٹ ڈے‘ نہیں ہو گا اور موجودہ پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے جمعرات یکم اپریل اور ہفتہ تین اپریل کو بھی معمول کے کاروبار کھلے رہیں گے۔
اشتہار
میرکل پر تنقید کے بعد ان کی تعریف بھی
انگیلا میرکل کے اس اعلان کے بعد جو حلقے وفاقی چانسلر پر شدید تنقید کر رہے تھے، ان میں سے بہت سے ان کی تعریف بھی کرنے لگے۔ سیاسی، اقتصادی اور عوامی حلقوں نے کہا کہ یہ بطور انسان اور سیاستدان چانسلر میرکل کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اپنے 'اچھی نیت اور برے نتائج والے‘ فیصلے کو مسنوخ کرتے ہوئے ایمانداری کا مظاہرہ کیا اور عوام سے معذرت کر لی۔
ایوی ایشن کی صنعت پر کورونا وائرس کے انتہائی تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔ جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کو حکومت کی مالی امداد ملنے والی ہے۔ ناقدین اس پر ناخوش ہیں۔ تاہم فضائی کمپنیوں کے لیے ریاستی امداد کوئی نئی بات نہیں۔
تصویر: AP
امداد چاہیے، مداخلت نہیں
جرمن حکومت ہوائی کمپنی لفتھانزا کو نو بلین یورو کی امداد دے رہی ہے۔ اس امداد کے بعد برلن حکومت لفتھانزا کے بیس فیصد حصص کی مالک بن جائے گی اور اس شرح میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے واضح کیا ہے کہ مالی امداد کے باوجود حکومت کی جانب سے کمپنی کے کارپوریٹ فیصلوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اسمارٹ ونگز کی اسمارٹ ڈیل
چیک جمہوریہ کی حکومت ہوائی کمپنیوں کے گروپ اسمارٹ ونگز پر مزید کنٹرول کی خواہشمند ہے۔ یہ چیک ایئر لائنز کی بنیادی کمپنی ہے۔ چیک وزیر صنعت کا کہنا ہے کہ حکومت اسمارٹ ونگز کا مکمل کنٹرول سنبھال سکتی ہے۔ دوسری جانب اس کمپنی کے ڈائریکٹرز نے واضح کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس بحران کے تناظر میں صرف مدد کے خواہاں ہیں اور کچھ نہیں چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ریاست سے اور مدد درکار ہے!
پرتگال کی قومی ہوائی کمپنی ٹٰی اے پی (TAP) اپنی بقا کے لیے حکومت سے مالی قرضہ چاہتی ہے۔ ملازمین مزید مالی مدد کے ساتھ حکومتی کنٹرول کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پرتگالی وزیر اعظم ٹی اے پی کو قومیانے کا عندیہ دی چکے ہیں، ویسے اس کمپنی کے پچاس فیصد حصص پہلے ہی حکومت کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture alliance/M. Mainka
مدد کی بہت ضرورت نہیں
ناروے کی بجٹ ایئر لائن یا سستی ہوائی کمپنی نارویجیئن کو حکومت سے بلاواسطہ امداد ملی تو ہے لیکن یہ کمپنی اب تشکیل نو کے مشکل فیصلے کرنے میں مصروف ہے۔ ایسا امکان ہے کہ انجام کار یہ ہوائی کمپنی ریاستی انتظام میں چلنے والے بینک آف چائنا کے کنٹرول میں آ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Mainka
سنگاپور ایئر لائنز غریب ہوتی ہوئی
رواں ماہ کے اوائل میں قیام کے اڑتالیس برسوں بعد سنگاپور ایئر لائنز نے پہلی مرتبہ بڑے خسارے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بیشتر ہوائی جہاز کھڑے ہیں۔ حکومت سنگاپور ایئر لائنز کے نصف سے زائد حصص کی مالک ہے۔
تصویر: Singapore Airlines
خراب حالات کی شروعات
خلیجی ممالک کی ریاستی ملکیت کی بڑی ایئر لائنز ایمیریٹس، قطر اور اتحاد کو دنیا بھر میں کئی حریف ہوائی کمپنیوں کا سامنا ہے۔ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی ایئر لائنز کو حالیہ ایام میں داخلی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: Emirates Airline
حکومتی کنٹرول معمول کی بات
ہوائی کمپنیوں کے گروپ ایروفلوٹ میں روسی قومی ایئر لائنز ایروفلوٹ بھی شامل ہے۔ ایروفلوٹ کے اکاون فیصد سے زائد حصص کی مالک رشئین فیڈریشن ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہوائی کمپنیوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے اور ان میں حکومتی کنٹرول میں چلنے والی ہوائی کمپنیوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Medina
7 تصاویر1 | 7
میرکل نے آج اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ بہت کم وقت میں اس فیصلے پر ملک گیر عمل درآمد قدرے مشکل ہوتا اور پھر ملازمین کو تنخواہوں اور اجرتوں کی ادائیگی کے معاملے میں قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھیں۔
جرمن پارلیمان میں بازگشت
میرکل کے آج کے بیان پر جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بھی بحث ہوئی، جس میں کئی اراکین نے اپنی تقریروں میں کہا کہ حکومت کو ایسے سخت ایسٹر لاک ڈاؤن کا کوئی فیصلہ سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔
دوسری طرف کئی ارکان نے کہا کہ انگیلا میرکل کی بطور سیاستدان ایک بڑی خوبی ان کی طرف سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا ہے۔ ارکان پارلیمان نے کہا کہ ان کی طرف سے حکومتی فیصلہ واپس لے لینا اور اس پر عوام سے معذرت کرنا ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔
م م / ش ج (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
کورونا سے جرمنی کو درپیش مشکلات
جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے مریض تقریباً پندرہ سو ہیں۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہو چکا ہے۔ خالی دکانیں، تمائشیوں کے بغیر فٹ بال میچز اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں۔ جرمنی میں روزمرہ کی زندگی کیسے گزاری جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
عطیات میں کمی
خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
خالی اسٹیڈیم میں میچز
وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایسی تمام تقریبات کو منسوخ کرنے کا کہا ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہو۔ جرمن فٹ بال لیگ نے اعلان کیا کہ فٹ بال کلبس اور ٹیمز خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں تمائشیوں کی موجودگی میں میچ کھیلنا ہے یا نہیں۔ بدھ کے روز ایف سی کولون اور بوروسیا مؤنشن گلاڈ باخ کا میچ خالی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اسی طرح کئی دیگر کلبس نے بھی خالی اسٹیڈیمز میں میچ کھیلے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
ثقافتی تقریبات بھی متاثر
جرمنی میں ثقافتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد تجارتی میلے اور کنسرٹس یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں یا انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ لائپزگ کتب میلہ اور فرینکفرٹ کا میوزک فیسٹیول متاثر ہونے والی تقریبات میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد کلبس اور عجائب گھروں نے بھی اپنے دروزاے بند کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی جرمن ٹیلی وژن اور فلم ایوارڈ کا میلہ ’’ گولڈن کیمرہ‘‘ اب مارچ کے بجائے نومبر میں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
اسکول ابھی کھلے ہیں
اٹلی میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جرمنی میں زیادہ تر اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اساتذہ کی تنظیم کے مطابق ملک بھر میں فی الحال کورونا سے متاثرہ اسکولوں اور کنڈر گارٹنز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/F. Hoermann
غیر ملکیوں سے نفرت
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی وجہ سے غیر ملکیوں سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی ممالک جیسے امریکا اور اٹلی کے مقابلے میں ایشیائی ریستورانوں اور دکانوں میں گاہکوں کی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیائی خدوخال رکھنے والے افراد کو نفرت انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لائپزگ میں جاپانی مداحوں کے ایک گروپ کو جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کا ایک میچ دیکھنے نہیں دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ہوائی اڈے مسافروں نہیں جہازوں سے بھر ے
جرمن قومی ایئر لائن لفتھانزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی پروازوں کی گنجائش میں پچاس فیصد تک کی کمی کر دی ہے۔ لفتھانزا کے ڈیڑھ سو جہاز فی الحال گراؤنڈ ہیں جبکہ مارچ کے آخر تک سات ہزار ایک سو پروازیں منسوخ کر دی جائیں گی۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ موسم گرما کا شیڈیول بھی متاثر ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے فلائٹس کم کی گئی ہیں۔ لوگ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
لڑکھڑاتی کار ساز صنعت
چین میں کار ساز ی کے پلانٹس جنوری سے بند ہیں اور فوکس ویگن اور ڈائلمر جیسے جرمن ادارے اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی ایسی کئی جرمن کمپنیاں بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، جو چین سے اضافی پرزے اور خام مال درآمد کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Meyer
سرحدی نگرانی
اٹلی اور فرانس کے بعد جرمنی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس دوران جرمنی سے آنے والی گاڑیوں کو اچانک روک کر مسافروں کا درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے ٹرین سے سفر کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔