جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے منگل کے روز کہا ہے کہ ان کی رائے میں کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاؤن کو سخت تر ہونا چاہیے۔ پیر کے روز جرمنی کی وفاقی حکومت اور صوبائی رہنماؤں کے درمیان اس سلسلے میں بات چیت ہوئی تھی۔
اشتہار
صوبائی رہنماؤں سے بات چیت کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ وہ کورونا وائرس کے انسداد کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن پر مزید سخت عمل درآمد کے حق میں ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ گفتگو میں یہ امر طے پایا ہے کہ لاک ڈاؤن سے متعلق اقدامات کو ایک ہفتے میں دوبارہ دیکھا جائے گا۔ میرکل نے کہا کہ وہ بعض مقامات بہ شمول دارالحکومت برلن، کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر شدید فکرمند ہیں۔
میرکل نے کہا، ''کورونا وائرس کے نئے کیسز میں تیز رفتار اضافہ تو نہیں ہو رہا، مگر اب بھی یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمیں ہر حال میں اپنے رابطوں کو محدود کرنا ہو گا اور محدود کرنا ہو گا اور محدود کرنا ہو گا۔‘‘
میرکل نے جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کی جانب سے ایک کاروباری سمپوزیم سے خطاب میں کہا، ''مجھے افسوس ہے کہ کبھی کبھی پیش رفت کی رفتار نہایت سست ہوتی ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ منگل کے روز جرمنی میں کورونا وائرس کے 14 ہزار چار سو انیس نئے کیس سامنے آئے تھے۔ اس طرح جرمنی میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد اب آٹھ لاکھ پندرہ ہزار سات سو چھیالیس ہو چکی ہے، جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد میں گزشتہ روز دو سو سڑسٹھ کا اضافہ ہوا۔ جرمنی میں اس وبا کے نتیجے میں اب تک مجموعی ہلاکتیں بارہ ہزار آٹھ سو چودہ ہو چکی ہیں۔
بین الاقوامی ریڈکراس کے سیکرٹری جنرل گن چھاپاگین نے متنبہ کیا ہے کہ جس انداز سے حکومتیں عالمی وبا کے خلاف متحرک ہیں، اتنی ہی سرعت سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے سے بھی نمٹنے کے ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا اس وقت ایک نہایت سنجیدہ بحران سے گزر رہی ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیاں درمیانی اور طویل مدت کے تناظر میں انسانی زندگی اور زمین کے لیے زیادہ تباہ کن ہے، 'بدقسمتی سے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کوئی ویکسین نہیں۔‘‘
وبا اور فضائی آلودگی کے سائے تلے ديوالی
بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو مذہب کے ماننے والے دیوالی منا رہے ہیں۔ بھارت میں کورونا کی وبا اور بڑے شہروں ميں شديد آلودگی کے باوجود عوام نے يہ مذہبی تہوار روايتی جوش و خروش سے منايا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Talukdar
کورونا ہے تو کيا ہوا، کھل کے خريدو سونا
بھارت ميں ديوالی کے موقع پر سونا خريدنا ايک رواج ہے، جس کی وجہ سے اس تہوار کے آتے سونے کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے۔ ايک اندازے کے مطابق سونے کی سالانہ تجارت کا چاليس فيصد اسی تہوار کے قريب ہوتا ہے۔ يہ منظر راجھستان کے شہر جے پور کے مشہور جواہری بازار کی ہے، جس ميں کاروباری سرگرمياں واضح ہيں۔
تصویر: Vishal Bhatnagar/NurPhoto/picture alliance
پٹاخوں کی فروخت بھی جاری رہی
يہ مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کی ايک مارکيٹ کی تصوير ہے، جہاں پٹاخے فروخت کيے جا رہے ہيں۔ ديوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑنا بھی ايک روايت ہے مگر کئی شہروں ميں آلودگی کی پريشان کن سطح کی وجہ سے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
تصویر: Payel Samanta/DW
سب سے زيادہ ديے جلانے کا ريکارڈ
ايودھيا ميں دريائے سريو کے کنارے ديے جلانے کی روايت بھی کافی پرانی ہے۔ تيرہ نومبر کی رات لوگوں نے اس مقام پر 584,572 سے زائد ديے جلائے، جو ايک نيا ريکارڈ ہے۔ گينس بک آف ورلڈ ريکارڈز ميں اس کا تذکرہ بھی کيا گيا۔ يہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ اسی مقام پر سب سے زيادہ ديے جلانے کا ريکارڈ قائم ہوا۔
تصویر: Rajeev Bhatt/AP/picture alliance
پوجا کا اہتمام، حفاظتی تدابير کے ساتھ
مغربی بنگال ميں يہ ’بتياچريا بڑی پوجا‘ کا منظر ہے۔ يہ مغربی بنگال کی قديم ترين پوجا ہے، جو خاص ديوالی کے موقع پر کی جاتی ہے۔ بھارت بھر ميں اس بار پوجا کی مختلف تقريبات ميں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے متعلق قوانين کا کچھ حد تک احترام کيا گيا۔
مذہبی ہم آہنگی: ديوالی اور ہولی مغربی ممالک ميں بھی مقبول
يہ تصوير ملائيشيا ميں ايک خاتون کی ہے، جن کے ہاتھوں ميں پھلجھڑی ہے۔ ديوالی کا تہوار نہ صرف بھارت بلکہ دنيا بھر ميں جہاں جہاں ہندو موجود ہيں، وہاں منايا جاتا ہے۔ حاليہ برسوں ميں ديوالی اور ہولی جيسے تہوار مغربی ممالک کے عوام ميں بھی مقبول ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Annice Lyn/Zuma/picture alliance
ديوالی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ
بھارت ميں ہر سال موسم خراں کے مہينوں ميں فضائی آلودگی يا اسموگ کا مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ ديوالی کے موقع پر پٹاخوں سے اس ميں اضافہ ہوتا ہے اور يہی وجہ ہے کہ حکام نے چند رياستوں ميں پٹاخوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
تصویر: DW/A. Ansari
وبا کے سائے تلے ديوالی بھی کوئی ديوالی؟
بھارت کورونا کی وبا سے دوسرا سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ وہاں اب تک ستاسی لاکھ افراد اس وائرس کا شکار بن چکے ہيں جبکہ ايک لاکھ انتيس ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کئی افراد کے ليے ديوالی کی تقريبات بھی مدہم رہيں۔
تصویر: Reuters
7 تصاویر1 | 7
یہ بات اہم ہے کہ یورپ میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے تناظر میں کئی ممالک نے ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے۔ آسٹریا میں منگل کے روز سے شدید لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے اور اب لوگ گھروں سے فقط اس صورت میں نکل سکتے ہیں، جب انہیں اشیائے ضرورت خریدنا ہوں، ورزش کرنا ہو یا نوکری ایسی ہو، جہاں جانا لازم ہے۔ آسٹریا میں تمام ریستوران، دکانیں، حجام اور دیگر خدمات کے مراکز بند کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ سات روز میں آسٹریا میں کورونا وائرس کے سنتالیس ہزار نئے کیسز سامنے آئے تھے۔
فرانس نے بھی ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے، تاہم اس کے خاتمے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی ہے۔ جرمنی میں بھی رواں ماہ کے آخر تک جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔