امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ سفارتی اور فوجی مشیر رواں ماہ کے اختتام پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کے حالیہ سخت لہجے کے بعد اس پیش رفت کا مقصد آخر کیا ہو سکتا ہے؟
اشتہار
کچھ ہفتے قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام آباد حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’شر پھیلانے والوں‘ کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہے۔ اس سخت بیان بازی کے بعد اب امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کے دورے کرنے والے ہیں۔ پاکستانی اور امریکی سفارتی ذرائع نے ان دوروں کی تصدیق کر دی ہے۔ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان میں اعلیٰ سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے مابین تعاون اور اعتماد کی ایک نئی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
طویل عرصے سے واشنگٹن حکومت کا پاکستان پر الزام ہے کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں ’جہادی گروہوں‘ کو تعاون فراہم کرتا ہے، جو سرحد پار افغانستان میں کیے جانے والے حملوں میں امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ نے اسی تناظر میں اسلام آباد کی طرف زیادہ جارحانہ انداز اپنایا۔ اگست میں ہی ٹرمپ نے کہا کہ امریکی حکومت پاکستان کو لاکھوں ڈالرز ادا کر رہی ہے جبکہ جواب میں پاکستان ایسے دہشت گردوں کو تعاون فراہم کر رہا ہے، جن کے خلاف واشنگٹن حکومت لڑ رہی ہے۔
چھ ہفتے قبل کی اس بیان بازی کے بعد اب امریکی موقف میں کچھ لچک پیدا ہوئی ہے۔ امریکی وزیر دفاع میٹس نے رواں ہفتے ہی کانگریس کو بتایا کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی ایک اور کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرکھا جائے گا کہ آیا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف پینٹاگون کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ میٹس کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کی افواج کے مابین معمول کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
اسی اثناء پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف اپنے دورہ امریکا کے دوران غیرمتزلزل نظر آئے۔ انہوں نے ایسے امریکی الزامات کو ’کھوکھلا‘ قرار دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے ایسے تمام تر الزامات کو ’ناقابل قبول‘ بھی قرار دیا۔ خواجہ آصف نے کہا، ’’ستر سال پرانے دوست ملک کے ساتھ اس طرح بات کرنا مناسب نہیں۔‘‘ انہوں نے ٹلرسن کے دورہ پاکستان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو خطے میں قیام امن کی خاطر مل کر کام کرنا چاہیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ عوامی سطح پر سخت لہجہ اختیار کرنے کے بعد امریکی حکام سے نجی ملاقاتوں میں پاکستانی حکام نے یہ شکایت بھی کی کہ حقانی نیٹ ورک یا دیگر جنگجو گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے امریکا نے کوئی ٹھوس درخواست نہیں کی۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو میں خواجہ آصف نے تو برملا کہا کہ واشنگٹن حکومت بتائے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ پاکستانی حکومت امریکا کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔
کئی مبصرین نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کے حالیہ دورہ افغانستان کو بھی اہم قرار دیا ہے۔ اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن متعدد ناقدین کے خیال میں جنرل باجوہ کے اس دورے سے کوئی بڑی امید نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ یہی ناقدین کئی دہائیوں سے اس طرح کے دوروں اور مذاکراتی ادوار کو دیکھ رہیں ہیں، جن کا ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔