صدر جو بائیڈن نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ میں مساوات اور جمہوریت خطرے میں ہیں۔ ان کے بقول سابق صدر ٹرمپ اور 'امریکہ کو پھر عظیم بنانے' والے نعرے کے حامی انتہا پسند ریپبلکنز ملک کی بنیادوں کے لیے خطرہ ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے یکم ستمبر جمعرات کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی جمہوریت کو "انتہا پسندوں" سے خطرہ لاحق ہے۔ فلاڈیلفیا کے انڈیپنڈنس ہال میں اپنے خطاب کے دوران، جو بائیڈن نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے "میک امریکہ گریٹ اگین" (امریکہ کو دوبارہ عظیم ملک بنانے کی مہم) کے حامیوں پر شدید نکتہ چینی کی۔
ان کا کہنا تھا، "ڈونلڈ ٹرمپ اور 'میک امریکہ گریٹ اگین' کے حامی ریپبلکن اس انتہا پسندانہ سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں جس سے ہماری جمہوریت کی بنیادوں کو ہی خطرہ لاحق ہے۔" بائیڈن نے مزید کہا، "امریکہ اپنی قومی روح کی تلاش کے لیے حالت جنگ میں ہے۔"
ان کا کہنا تھا، "مساوات اور جمہوریت خطرے میں ہیں۔ اور اگر ہم اس سے نظریں چرائیں، تو ایسا دکھاوا کر کے ہم اپنے اوپر کوئی احسان نہیں کریں گے۔"
اشتہار
ٹرمپ کے حامی امریکہ کو پیچھے کی طرف لے جا رہے ہیں
بائیڈن نے خبردار کیا کہ 'میک امریکہ گریٹ اگین' کے حامی "فورسز اس ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ امریکہ کو وہاں لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں اپنی پسند کے انتخاب کا کوئی حق نہ ہو، جہاں پرائیویسی کا کوئی حق نہیں، مانع حمل کا کوئی حق نہ ہو اور جہاں آپ جس سے محبت کرتے ہوں، اس سے شادی کرنے کا کوئی حق نہ ہو۔"
بائیڈن نے سیاسی اختلافات کو در گزر کرتے ہوئے امریکیوں اور خاص طور پر مین اسٹریم ریپبلکنز سے ملک کی جمہوریت کے دفاع میں آگے آنے کو کہا۔
جو بائیڈن نے کہا، "ایک طویل عرصے سے، ہم خود کو یہ یقین دلاتے رہے ہیں کہ امریکہ میں جمہوریت کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اس کا دفاع کرنا ہے۔ اس کی حفاظت کرو۔ اس کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ ہم میں سے ہر ایک کو کھڑا ہونا چاہیے۔"
سابق صدر کے سخت گیر موقف رکھنے والے حامیوں پر توجہ دینی کی موجودہ انتظامیہ کی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی کی طرف یہ ایک اشارہ بھی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریبا ایک برس تک بائیڈن اپنے خطاب میں ٹرمپ کا نام لینے سے گریز کرتے تھے، تاہم اب وہ ان پر کھل کر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
بائیڈن نے کہا، "زیادہ امریکی 'میک امریکہ گریٹ اگین' جیسے انتہا پسندانہ خیال کو مسترد کرتے ہیں، اور اس کے حامیوں سے کہیں زیادہ تعداد اس کو مسترد کرنے والوں کی ہے۔"
ایک ریپبلکن رہنما جیف کافمین نے اس کے رد عمل میں کہا کہ بائیڈن اس طرح کی باتیں کہہ کر ایک آمرانہ طرز حکومت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور "اپنے سیاسی مخالفین کو ریاست کا دشمن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
گزشتہ ہفتے جو بائیڈن نے 'میک امریکہ گریٹ اگین' فلسفے کو "نیم فاشزم" سے تشبیہ دی تھی۔ اور اس وقت بھی سینیٹ کے ریپبلکن رہنما کیون میکارتھی نے اس پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لاکھوں "محنتی اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں کو" بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ص ز / ج ا (اے پی، روئٹرز)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔