سراج الدین حقانی کا اس طرح کھلے عام ایک عوامی تقریب میں شریک ہونا دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان کی اعتماد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
اشتہار
انتہائی خفیہ زندگی بسر کرنے والے طالبان کے رہنما سراج الدین حقانی پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آ گئے ہیں۔ قبل ازیں ان کی صرف ایک ہی تصویر سامنے آئی تھی اور وہ بھی واضح نہیں تھی۔
سراج الدین حقانی نہ صرف طالبان کی طرف سے وزیر خارجہ بنائے گئے ہیں بلکہ وہ 'حقانی نیٹ ورک‘ کے سربراہ بھی ہیں۔ امریکی حکومت نے انہیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جبکہ ان کی گرفتاری میں مدد کروانے والے کے لیے دس ملین امریکی ڈالر کا انعام بھی دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے بھی انہیں دہشت گردوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔
سراج الدین حقانی ہفتے کے دن کابل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ نیشنل پولیس اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں میڈیا اور عوام کے سامنے آئے۔ نائب افغان وزیر اعظم ملا عبدالغنی بردار کے قریبی ساتھی عبداللہ عظام نے اپنے ٹوئٹر پر ان کی تصویر شائع کی۔
سراج الدین حقانی نے پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب میں نئے بھرتی کئے گئے سکیورٹی اہلکاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''میں آپ کی تسلی اور اعتماد جیتنے کی خاطر، میڈیا اور عوام کے سامنے آیا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ گزشتہ برس وسط اگست میں طالبان کی طرف سے افغانستان پر قبضے کے بعد سے سراج الدین حقانی ابھی تک عوامی سطح پر نمودار نہیں ہوئے تھے۔
سراج الدین حقانی طالبان کے انتہائی اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، جو بیس سالہ افغان جنگ میں امریکی اہداف پر خونریز حملوں کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سراج الدین حقانی کا کھلے عام عوامی تقریب میں شریک ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ طالبان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
حقانی نیٹ ورک سن 1970 کی دہائی میں سراج الدین حقانی کے والد جلال الدین حقانی نے قائم کیا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں اس عسکری گروہ کو مضبوط بنانے کی خاطر امریکی خفیہ ادارے سی آئی نے بھی مدد فراہم کی تھی۔ تب افغانستان پر قابض سوویت فورسز کو شکست دینے کی خاطر مجاہدین کو مغربی حمایت حاصل تھی۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
سن 2018 میں جلال الدین حقانی کی موت کی خبر عام کی گئی تھی، جس کے بعد سراج الدین حقانی نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی تھی۔ اندازہ ہے کہ سراج الدین حقانی کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہے۔ سراج الدین حقانی کو مبینہ طور پر متعدد مرتبہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ افغانستان اور پاکستان سمیت ان ہمسایہ ممالک کی سرحدوں پر کیے جانے والے ان ڈرون حملوں میں البتہ وہ محفوظ ہی رہے۔
سن 2020 میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں سراج الدین حقانی کا ایک مضمون بھی شائع کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے مغربی عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ افغان طالبان کیا چاہتے ہیں۔ اس مضمون کی اشاعت پر ایک تنازعہ بھی کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ کئی حلقوں کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ نیو یارک ٹائمز نے ایک 'دہشت گرد‘ کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ایک فورم مہیا کیا ہے۔