سرباز خان ایسے پہلے پاکستانی کوہ پیما بن گئے ہیں جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی والی دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 10 کو سر کر لیا ہے۔ انہوں نے دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی سر کرکے یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔
اشتہار
سرباز خان نے آج ہفتہ سات مئی کی صبح نیپال میں موجود دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی کنچن جنگا کو سر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 32 سالہ سرباز خان کا تعلق پاکستانی علاقہ گلگت بلتستان سے ہے اور انہوں نے بطور کوہ پیما اپنا کیریئر 2016ء میں شروع کیا تھا۔
سرباز خان کون کون سی چوٹیاں سر کر چکے ہیں
کنچن جنگا سر کرنے سے قبل سرباز خان دنیا بھر میں موجود ایسی نو چوٹیاں سر کر چکے ہیں جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے زائد ہے۔ پوری دنیا میں ایسی کُل 14 چوٹیاں موجود ہیں۔
انہوں نے 2019ء میں نیپال ہی میں موجود دنیا کی چوتھی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ لوٹسے کو سر کیا تھا جس کی اونچائی 8,516 میٹر ہے۔ سرباز خان بغیر آکسیجن کے یہ چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بنے تھے۔
اس سے قبل انہوں نے 8,125 میٹر بلند نانگا پربت کو 2017ء میں سر کیا۔ 2018ء میں انہوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کیا، جس کی اونچائی 8,611 میٹر ہے۔ 2019ء میں انہوں نے 8,163 میٹرز بلند براڈ پیک کو فتح کیا۔ رواں برس کے آغاز میں انہوں نے اناپورنا کی چوٹی کو سر کیا جو 8,091 میٹر بلند ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی انہوں نے رواں برس ہی سر کی ہے جو 8,848 میٹر بلند ہے۔ گیشر بروم کو بھی انہوں نے رواں برس ہی سر کیا ہے جو 8,035 میٹر بلند ہے۔
ان کی اس کامیابی پر پاکستان کے معروف کوہ پیماؤں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
سرباز خان دنیا کی چار دیگر بلند ترین چوٹیوں کو بھی سر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رواں ماہ وہ نیپال اور چینی علاقے تبت کی سرحد پر واقع ماکالو چوٹی کو جبکہ رواں برس گرمیوں میں ہی وہ گیشربروم ون کو بھی سر کرنا چاہتے ہیں۔
جس کے بعد چو اویو اور شیشاپنگما نامی چوٹیاں رہ جائیں گی جنہیں وہ بعد میں کسی وقت سر کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے مشکل اور کٹھن چوٹی سر کر لی
پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے گلگت بلتستان کی شمشال وادی کی ایک بلند اور مشکل چوٹی کو سر کیا ہے۔ اس ٹیم کا مقصد خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور انہیں کٹھن کھیلوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین کوہ پیما
خواتین کوہ پیماؤں کی اس مہم جوئی کا اعلان پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کی جانب سے سوشل میڈیا پرکیا گیا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس مہم کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ جسمانی فٹنس کی بنیاد پر چارخواتین کو اس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے چنا گیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو سمیت دنیا کے سات براعظموں کے سات بلند ترین پہاڑ سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس مہم جوئی کی سربراہی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا
اس ٹیم میں امریکی اور ناروے کی خواتین کوہ پیما بھی شامل تھیں۔ پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق ان کی شمولیت کا مقصد پاکستانی اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے درمیان صلاحیتوں اور معلومات کا تبادلہ تھا۔ خواتین کی اس ٹیم نے شمشال گاؤں کی گوجریو وادی میں ایک کٹھن اور پانچ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ’ بوئیسوم پاس‘ کو سر کیا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت
کوہ پیمائی کے پہلے دن شمشال گاؤں سے خواتین نے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت طے کی۔ ٹیم نے پہلا قیام سطح سمندر سے 4100 میٹر بلند ایک مقام پر کیا۔ یہاں ایک دن قیام کے بعد اس ٹیم نے سطح سمندر سے 4700 میٹر بلند مقام تک کوہ پیمائی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خراب موسم اور کٹھن راستے
خراب موسم اور کٹھن راستے کی وجہ سے کچھ خواتین زخمی بھی ہوئیں اور آکسیجن کی کمی کے باعث کچھ خواتین کو سانس لینے میں دقت کا سامنا رہا۔ اس باعث یہ خواتین مزید کوپیمائی جاری نہ رکھ سکیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ
بالآخر ٹیم کی چار ارکان بسمہ، کومل، ڈاکٹر سیو اور ثمینہ بیگ نے سطح سمندر سے پانچ ہزار چھ سو میٹر بلند پہاڑی کو سر کر لیا۔ اس مقام پر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین سخت کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق خواتین کوہ پیماؤں کی اس ٹیم نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کوہ پیمائی جیسے سخت کھیل میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستان میں اسپورٹس معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے شریک بانی مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اور ان کی بہن ثمنیہ بیگ نوجوانوں، خصوصی طور پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت کو بڑھانا چاہتے تھے اور اسی لیے ’پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ‘ کو قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں اسپورٹس ایک معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی سوچ اور خیالات کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین کے لیے کم مواقع
مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں گھروں سے باہر، خصوصی طور پر کھیلوں کے لیے بنائے گٗئے میدانوں میں لڑکیوں کو بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ خواتین کوہ پیمائی کی اس مہم کے ذریعے ہم نے خواتین میں خود اعتمادی اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔