1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سربرنیٹسا قتل عام: سیربیا کی پارلیمنٹ میں معافی کی قرارداد منظور

31 مارچ 2010

سیربیا کی پارلیمنٹ نے پندرہ سال قبل آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام پر متاثرہ خاندانوں سے معافی اور اِس واقعہ کی مذمت کی قرارداد منظور کر لی ہے۔

تصویر: AP

سن 1995 ء میں بوسنیا جنگ کے دوران سربرینٹسا میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعے کی مذمتی قرارداد کو سیربیا کی پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔

اِس قرارداد میں ہزاروں انسانوں کے قتل عام کو نسل کشی سے تعبیر نہیں کیا گیا البتہ متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی اور معافی پیش کی گئی ہے۔ قتل عام میں اندازاً آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمان ہلاک کئے گئے تھے۔ اِن ہلاکتوں میں زیادہ تر تعداد نوجوان لڑکوں کی تھی۔ بوسنیائی عوام کا خیال ہے کہ اُن کی ایک پوری نسل کو ختم کردیا گیا تھا۔

سیربیا کے سابق صدر سلابودان میلاسووچتصویر: dpa

سیربیا کے سابق صدر سلابودان میلاسووچ کی حامی فوج نے اِس غارتگری میں حصہ لیا تھا۔ دوسری جانب ہالینڈ میں ایک عدالت نے اُس اپیل کو رد کردیا ہے جس میں اقوام متحدہ کو اِس قتل کا ذمہ دار قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

سیربیا کے دارالحکومت بلغراد میں پارلیمنٹ میں یہ قرارداد تیرہ گھنٹوں کی طویل گرما گرم بحث کے بعد منظور کی گئی۔ مغرب نواز مخلوط حکومت کو بظاہر قرارداد منظور کروانے میں خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ سیربیا کا ایوان دو سو پچاس اراکین پر مشتمل ہے اور قرارداد کے حق میں ایک سو ستائیس ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹنگ کے وقت ایوان میں ایک سو تہتر اراکین موجود تھے۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ سیربیا کی پارلیمنٹ جو لائی سن 1995 میں سربرنیٹسا کی مسلم آبادی کے خلاف سرزد کئے جانے والے جرائم کی سخت مذمت کرتی ہےاور متاثرہ خاندانوں کو معافی پیش کی جاتی ہے کیونکہ المئے کو روکنے کے لئے ممکنہ تدابیر اختیار نہیں کی جا سکی تھیں۔ قرارداد کے متن میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

سیربیا کی مخلوط حکومت کی جانب سے بحث کے دوران یہ کہا گیا کہ قرارداد کی منظوری سے بلقان خطے میں پیدا شدہ ایک دردناک باب بند ہونے کا امکان ہو گا۔ ایسے خیالات کا اظہار بھی کیا گیا کہ یہ اقدام آنے والی نسلوں کے ضمیر پر سے بوجھ کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

قتل عام میں اندازاً آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمان ہلاک کئے گئے تھے جن میں زیادہ تر تعداد نوجوان لڑکوں کی تھیتصویر: AP

دوسری جانب اس قرارداد پر سیربیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کی جانب سے تنقید کی گئی ہے کہ اِس میں قتل عام کو نسل کشی نہیں قرار دیا گیا جو اصل واقعات سے روگردانی کے مترادف ہے۔ سربرنیٹسا کے علاقے میں اب تک ستر اجتماعی قبروں کی دریافت کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور کل چھپن سو افراد کے ڈی این اے ٹیسٹوں کے ذریعے شناخت بھی کی جا چکی ہے۔

قرارداد پر بحث کے دوران قرارداد کی مخالفت میں مظاہرین پارلیمنٹ بلڈنگ کے باہر جمع تھے اور وہ حکومت کے خلاف نعرہ بازی بھی کر رہے تھے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں