جرمن حکومت کے بیان کے مطابق سربیا اور کوسووو نے مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ منگل تیس اپریل کو جاری ہونے والا یہ بیان علاقائی سمٹ کے اختتام پر جاری کیا گیا۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن میں بلقان خطے کے دو ہمسایہ ملکوں کے مذاکرات پر راضی ہونے سے توقع کی گئی ہے کہ ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں کمی واقع ہو گی۔ اس کی بھی توقع کی ہے کہ سربیا اور کوسووو مذاکرات پر راضی ہو کر سابقہ سمجھوتے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔
برلن میں جرمنی کی میزبانی میں مغربی بلقان کے ممالک کے لیڈران ایک سربراہ اجلاس میں شریک تھے۔ اس سمٹ کا مقصد بھی سربیا اور کوسووو کے خراب ہوتے تعلقات میں بہتری پیدا کرنا خیال کیا گیا ہے۔
جرمن دارالحکومت میں مغربی بلقان ممالک کی سمٹ کی مشترکہ میزبانی چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کر رہے تھے۔ اس میں شریک ہونے والے ممالک میں بوسنیا ہرزیگوینا، کروشیا، مونٹی نیگرو، سربیا، کوسووو اور سلووینیہ شامل تھے۔ اس سمٹ میں فیدریکا موگرینی بھی شریک تھیں۔
ہمسایہ مگر اختلافات کے شکار ان ملکوں نے بات چیت شروع کرنے کی حامی بھرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ وہ مذاکرات میں تعمیری کردار ادا کریں گے۔ سربیا اور کوسووو کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کا سلسلہ یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیدریکا موگیرینی کی قیادت میں جاری ہے۔
ماضی میں کوسووو اور سربیا کے درمیان مذاکراتی سلسلے کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ سرحدوں میں تبدیلی کا متنازعہ معاملہ ہے۔
چانسلر میرکل اور صدر ماکروں نے مشترکہ طور پر زور دیا کہ خطے کے استحکام کے لیے مقدونیہ کی طرح مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ مقدونیہ نے نام کی تبدیلی کا تنازعہ یونان کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل کر لیا ہے۔ جرمن اور فرانسیسی لیڈروں کا خیال ہے کہ سربیا اور کوسوو کا اپنے اختلافی اور متنازعہ معاملات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ضروری ہے۔ میرکل اور ماکروں نے بلغراد اور پریشٹینا حکومتوں کے درمیان ایک نئے مذاکراتی سلسلے کو شروع کرنے پر زور دیا۔
سربیا اور کوسووو کے درمیان تعلقات میں شدید کشیدگی اور تناؤ برسوں سے جاری ہے۔ بلغراد نے کوسووو کے ریاستی تشخص کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ جرمنی سمیت اب تک ایک سو سے زائد ممالک کوسووو کو ایک با اختیار ملک تسلیم کرتے ہیں۔
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی کے بیس برس
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر چوبیس مارچ سن 1999 کو شروع ہوئی تھی۔ اس عسکری مشن سے سرب فوج کے کوسووو کی البانوی نژاد آبادی پر حملے کنٹرول کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے
کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔
تصویر: Eric Feferberg/AFP/GettyImages
غیر متشدد مزاحمتی تحریک کی ناکامی
سن 1980 کی دہائی میں بلغراد حکومت کی طرف سے البانوی نسلی اقلیت کے ثقافتی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد کوسووو کے عوام نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کوسووو کے رہنما ابراہیم روگووا کی یہ سیاسی کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ سرب رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ اپنی سوچ میں تبدیلی پر تیار نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلح گوریلا جنگ
حالات پرتشدد ہونے کے بعد کوسووو لبریشن آرمی نے ایک مسلح گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس نے سرب آبادی کے ساتھ ساتھ البانوی نژاد افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سرب دستوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں اس نسلی اقلیت کی ملکیت گھروں اور دکانوں کو نذرآتش کرنا شروع کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں جانیں بچاتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منظم بے دخلی
سربیا کی جنگ شدید تر ہوتی گئی اور اس دوران کوسووو لبریشن آرمی کی طرف سے سخت مزاحمت کے تناظر میں سرب فوجوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہزارہا ’کوسووار‘ باشندوں کو ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ان کی اکثریت کے پاس اپنی شناختی دستاویزات تک نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مذاکرات کی آخری کوشش بھی ناکام
امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے اس تنازعے کے فریقین کو فروری سن 1999 میں پیرس کے نواحی علاقے ریمبولے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا تاکہ کوسووو کے لیے عبوری خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا سکے۔ کوسووو نے اس ڈیل پر رضامندی ظاہر کر دی لیکن سربیا نے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تو یہ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’انسانیت کے نام پر فوجی مداخلت‘
چوبیس مارچ سن 1999 کو نیٹو نے سربیا کے فوجی اور اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تا کہ کوسووو کی البانوی نژاد آبادی کو پرتشدد حملوں سے بچایا جا سکے۔ جرمنی بھی ان حملوں میں شریک تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کی قیام کے بعد کے پچاس برسوں کی تاریخ میں یہ نیٹو کی پہلی جنگ کارروائی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور روس نے نیٹو کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی۔
تصویر: U.S. Navy/Getty Images
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
نیٹو کے جنگی طیاروں نے مسلسل اناسی دنوں تک سینتیس ہزار فضائی مشن مکمل کیے۔ سربیا کے اہم مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران رسد کے راستے ختم کرنے کے لیے بے شمار پل اور ریلوے ٹریک تباہ کر دیے گئے۔ سربیا پر بمباری کے علاوہ دو ہزار راکٹ بھی داغے گئے، جس دوران بہت سے عام شہری بھی مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانچیوو کے اوپر زہریلے بادل
بلغراد کے قریبی شہر پانچیوو کی کیمیائی کھاد بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی نیٹو کے جنگی طیاروں نے بم برسائے۔ اس حملے کے بعد اس فرٹیلائزر فیکٹری سے انتہائی مضر کیمیائی مادہ دھوئیں کی صورت میں پانچیوو کی فضا میں پھیل گیا۔ سربیا نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس حملے میں کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ افزودہ یورینیم والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگی پراپیگنڈے کے خلاف بھی جنگ
سربیا کے رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ کے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے نیٹو کے جنگی طیاروں کو بلغراد کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بھی نشانہ بنانا پڑا۔ اس حملے سے قبل سربیا کی حکومت کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط اہداف پر بمباری
نیٹو کی بمباری کے دوران ایک مرتبہ البانوی نژاد مہاجرین کا ایک قافلہ بھی نشانہ بن گیا تھا، جس میں اسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بھی غلطی سے بم گرنے سے چار افراد کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک شدید سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تصویر: Joel Robine/AFP/GettyImages
المناک میزانیہ
سلوبوڈان میلوشیووچ کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے ابتدائی پیغام سے ہی خوف و ہراس کے سلسلے میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔ نیٹو نے انیس جون سن 1999 سے بمباری بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہو گئے تھے۔ سرب معیشت زوال پذیر تھی اور بیشتر انتظامی ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔ پھر کوسووو کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔