بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی اپنی قومی سرحدوں کی بندش کے بعد سربیا میں موجود سینکڑوں مہاجرین اب رک جانے والے تعلیمی سلسلے کی جانب دوبارہ لوٹ رہے ہیں۔
اشتہار
نوجوان مہاجر شعیب نظری کی مادری زبان دری ہے مگر وہ بلغراد میں اسکول جا رہا اور سربیا کی زبان میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ بارہ سالہ یہ نوجوان ان سات سو تارکین وطن میں سے ایک ہے، جو سربیا میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مختلف اسکولوں میں داخل کیے گئے ہیں۔
دو برس قبل افغانستان سے ہجرت کرنے والا شعیب نظری اپنے خاندان کے ہم راہ اپنے ملک سے نکلا تھا، تو اس کی نگاہ میں یورپ کسی خواب سے کم نہیں تھا، تاہم یہاں پہنچ کر حقیقت اس خواب سے بالکل مختلف نکلی۔
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔
تصویر: Edward Crawford
10 تصاویر1 | 10
بلقان روٹ کہلانے والے راستے کی بندش کے بعد قریب چار ہزار تارکین وطن، جن میں اکثریت افغان اور پاکستانی باشندوں کی ہے، سربیا میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ یہ وہ افراد تھے، جو ترکی کے ذریعے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے تھے اور پھر بلقان خطے کے ذریعے مغربی اور شمالی یورپ جانا چاہتے تھے، تاہم بلقان کی ریاستوں نے اپنی اپنی سرحدیں غیرقانونی تارکین وطن کے لیے بند کر دیں اور وہ بلقان خطے کی مختلف ریاستوں میں پھنس کر رہ گئے۔
کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے
01:50
سربیا میں موجود ان چار ہزار تارکین وطن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے، جن کی تعلیم کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو دوبارہ جوڑنے کے لیے عالمی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی مدد سے انہیں اسکول بھیجا جا رہا ہے۔ ان بچوں کو اب مقامی زبان سے ناآشنائی کے باوجود مختلف اسکولوں میں داخل کیا جا رہا ہے۔
شعیب کے مطابق، ’’اسکول اچھا ہے۔ دوسرے لڑکے بہت باتیں کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں، مگر میں ان کی جانب توجہ نہیں مبذول نہیں کرتا۔‘‘
شعیب کا مزید کہنا ہے، ’’وہ صرف سربین زبان میں پڑھاتے ہیں اور کچھ چیزیں ہمیں سمجھ نہیں آتیں۔‘‘
مگر شعیب اور اس کے بہن بائیوں کے ساتھ مقامی زبان کے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات آسانی سے دے لیتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں زبان کی اضافہ کلاسیں بھی دی جا رہی ہیں۔