سرت سے شہریوں کا انخلاء، عبوری کونسل کا فیصلہ کن حملے کا عندیہ
5 اکتوبر 2011سرت سے نکلنے والے بیشتر افراد کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ہفتوں سے انقلابی جنگجوؤں کے خلاف سخت مزاحمت قذافی کے فوجی دستوں کی بجائے شہری خود کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی حفاظت کے لیے رضاکارانہ طور پر ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
شہر سے نکلنے والی گاڑیوں کی لمبی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے والے 31 سالہ موسٰی احمد نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’اس نام نہاد انقلاب نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ مگر ہم کھلے عام کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ جب ہمارا انقلابیوں سے سامنا ہوتا ہے تو ہمیں اپنے جذبات چھپانے پڑتے ہیں۔‘‘
لیبیا کے نئے حکمران قذافی کے دور حکومت کی آخری باقیات کا خاتمہ کرنے کے لیے سرت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ سرت معمر قذافی کا آبائی شہر ہے جو دارالحکومت طرابلس سے 400 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ باغیوں کے طرابلس پر قبضے کے چھ ہفتے گزر جانے کے بعد بھی معمر قذافی روپوش ہیں اور ان کا کچھ اتا پتا نہیں جبکہ ان کے حامیوں کا اب بھی سرت، بنی ولید اور بعض دیگر صحرائی شہروں پر قبضہ ہے۔
منگل کو امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے قاہرہ میں صحافیوں کو بتایا کہ جب تک لڑائی جاری ہے لیبیا میں جاری نیٹو کا فضائی مشن ختم نہیں کیا جا سکتا۔ نیٹو نے تیس ستمبر کو اپنے مشن میں نوے روز کی توسیع کی تھی۔ لیبیا کے عبوری وزیر اعظم محمود جبریل بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ عبوری قیادت کی جانب سے فتح اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل سرت کو زیر نگیں لانا ضروری ہے۔
منگل کو جنگجوؤں نے گولہ باری روک کر شہریوں کو سرت سے نکلنے کا موقع دیا تو مردوخواتین اور بچوں پر مشتمل سینکڑوں گاڑیوں کی قطار لگ گئی۔ ان میں سے کئی افراد کا کہنا تھا کہ شہر میں ضروریات زندگی کی اشیاء کا فقدان ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ زخمیوں کو علاج کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ امدادی اداروں کو شہر کے اندر پھنسے ہوئے شہریوں کی حالت پر تشویش ہے۔
سرت میں انسانی المیے پر پائے جانے والے خدشات کے باعث توجہ ابن سینا ہسپتال کی طرف مرکوز ہو گئی ہے جہاں آکسیجن کی عدم دستیابی اور جنریٹروں کے لیے ایندھن دستیاب نہ ہونے کے سبب مریض دم توڑ رہے ہیں۔ شہر سے نکلنے والی ایک خاتون ڈاکٹر نے بتایا کہ دونوں فریقوں کی جانب سے ہسپتال پر بھی فائرنگ کی جا رہی ہے۔
ادھر تیونس میں قید لیبیا کے سابق وزیر اعظم البغداری المحمودی نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں معمر قذافی ابھی تک ملک کے اندر موجود ہیں اور وہ آخری دم تک لڑنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’جہاں تک میں ان کو جانتا ہوں وہ اپنے ہتھیاروں اور ساتھیوں کے ہمراہ لڑ رہے ہیں۔‘‘
منگل کو لیبیا کے نئے حکمرانوں نے جنگجوؤں کے ایک گروپ کو قومی فوج میں شامل کرنے کی تقریب منعقد کی ۔ طرابلس کے ضلع سوق الجمعہ میں فوجی بینڈ کی دھنوں میں 500 نئے رنگروٹوں نے پریڈ کی۔ نئی حکومت کے لیے بڑا مسئلہ شمولیتی حکومت کا قیام اور مختلف جنگی یونٹوں کو ایک مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ طرابلس عسکری کونسل نے پیر کو طرابلس سے باہر کے تمام فوجی یونٹوں کو اپنے بھاری ہتھیار شہر سے باہر منتقل کرنے کو کہا تھا۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عابد حسین